دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا واقعی اسلام نے کوئی علیحدہ معاشی نظام دیا ہے؟
No image تحریر کلیم اللہ :پاکستان کے معاشی فلسفے کے تناظر میں لکھی گئی میری پچھلی پوسٹ پر بعض بڑے دلچسپ کومنٹس آئے جیسے"... اسلام کا اپنا کوئی معاشی نظام نہیں تھا جو نظام دنیا میں اسلام کے ظہور کے وقت رائج تھا اسلامی ریاست نے اسی کو ہی کم و بیش ردو بدل کے ساتھ رائج کر دیا۔۔۔۔۔"/دنیا میں تین بڑے معاشی فلسفے موجود ہیں/کسی زمانے میں دو ہوا کرتےتھے۔ آجکل تین ہوگئے؟ ۔۔۔۔۔۔""کم از کم مولانا سندھی اور جمعیت علمائے ہند کے اکابرین نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ اسلام کے سیاسی نظام کے تحت سوشلزم کو ہی مسلمانوں کے نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔۔۔۔۔"کیا واقعی اسلام نے کوئی معاشی نظام دیا ہے اس کا جواب مختلف تناظر میں دیا جا سکتا ہے۔ پہلے میں اس مسئلے کو منطقی طور پر (logically) حل کرنے کی کوشش کروں گا۔

کارل مارکس وہ پہلا فلاسفر تھا جس نے سوشلزم کو scientific bases (قابل عمل بنیادوں) پر 18540s to onward پیش کیا اور ہم کیپیٹلزم کی بات کریں تو Adam Smith وہ پہلا فلسفی تھا جس نے کیپیٹلزم کا قابل عمل خاکہ 1776 میں اپنی کتاب wealth of nation's میں پیش کیا امریکہ وہ پہلا ملک تھا جس نے تقریباً اسی زمانے میں اپنی جنگ آزادی کے بعد کیپیٹلزم کی طرف پیش قدمی شروع کی اور دنیا میں پہلا سوشلسٹ انقلاب 1917 میں روس میں آیا۔ پھر ایک اور یورپی اقوام کی لوٹ مار کا دور بھی ہے جس کو ہم mercantilism کہتے ہیں وہ سولہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک قائم رہا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرون وسطیٰ medieval age یا جس کو یورپ کا dark age بھی کہا جاتا ہے اس وقت باقی دنیا کس معاشی نظام کے ماتحت تھی۔ خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ، خلافت عثمانیہ، اور پھر ہندوستان میں ہمارا سات سو سالہ دور حکومت اور خاص طور پر مغل دور حکومت جس نے ھندوستان کو سونے کی چڑیا بنایا جس ھندوستان کی خوشحالی کا سن کر کولمبس ھندوستان کا سمندری راستہ ڈھونڈنے نکلا تھا۔
ایک تحقیق کے مطابق 1700ء میں اکیلے ہندوستان کا جی ڈی پی world GDP کا 22.6 فیصد تھا جبکہ اسوقت پورے یورپ کا کل ملا کہ جی ڈی پی 23.3 فیصد تھا۔ 1750ء میں ہندوستان کل دنیا کی پیداوار کا 25 فیصد پیدا کر رہا تھا جو کہ برطانوی قبضے کے بعد کم ہوتے ہوتے 1900ء تک 1.7فیصد پر آ گئی تھی۔
(Source: Davis, M. (2001). Late Victorian Holocausts: El Nino Famines & the Making of the Third World. Verso. p 293)
کیا یہ تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایک وقت میں دنیا کا سب سے زیادہ production of wealth کرنے والا ملک کسی بھی معاشی نظام سے عاری تھا یا پورے medieval age میں پورا Asia جو خوشحالی کا گھر تھا وہ کسی بھی معاشی نظام سے محروم تھا؟
یقیناً medieval age میں Asia میں ایک شاندار سیاسی اور معاشی نظام قائم تھا اس وقت تک سوشلزم، کیپیٹلزم اور مرکینٹلزم کی philosophies کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ اور آج اسلامی نظام معیشت کے بارے میں یہ سمجھنا کہ اصل تو سوشلزم ہے اور اسلامی نظام معیشت درحقیقت سوشلزم سے متاثر ہو کر گھڑ لیا گیا ہے یہ بات ہی خلاف عقل ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اس بات کو ماننا کہ فلاں بیٹے نے اپنے باپ کو جنم دیا۔
اب اسی مسئلے کو کارل مارکس کی philosophy کی رو سے دیکھتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر Asia میں ایک شاندار نظام موجود تھا تو کیا مارکس اس سے واقف تھا اور کیا اس نے اپنی تحریروں میں اس کو acknowledge کیا۔
مارکس نے یورپ میں development of capitalism اور آگے communism تک 6 مراحل (stages) ترتیب وار (with sequence) بیان کیے ہیں۔ یہ 6 مراحل مندرجہ ذیل ہیں
Primitive communism ➡️ Slave society ➡️ Feudalism ➡️ Capitalism ➡️ Socialism, ➡️ Communism
اس ترتیب میں تیسرا مرحلہ وہ ہے جب یورپ dark ages میں تھا
آگے چل کر مارکس جب Asia میں development of capitalism کی بات کرتا ہے تو ترتیب یوں ہوتی ہے
Primitive communism ➡️ Slave society ➡️ Asiatic mode of production (AMP) ➡️ Capitalism ➡️ Socialism, ➡️ Communism
یہاں تیسرا مرحلہ مختلف ہے یعنی ایشیا میں کیپٹلزم کی development کا path یورپ سے مختلف تھا۔ یہاں یورپ کی طرح feudalism نہ تھا یعنی یہاں کا معاشی نظام مختلف تھا جس کو مارکس نے Asiatic mode of production (AMP) کا نام دیا۔ جیسے feudalism مارکس کے نزدیک ایک نظام ہے اسی طرح مارکس AMP کو بھی ایک نظام سمجھتا ہے۔
مارکس کے نزدیک AMP وہ نظام تھا جو Asia میں عموماً اور ھندوستان میں میں خصوصاً رائج تھا۔ اب یہ وہ وقت تھا جب مسلم دور حکومت ہندوستان میں اپنے عروج پر تھا۔انڈیا کی حد تک AMP در حقیقت مسلمانوں کا بنایا ہوا معاشی نظام تھا۔ AMP سے پہلے ھندوستان میں کچھ exceptions کے ساتھ Vedic law رائج تھا اگر آپ مفتی سید عبدالقیوم جالندھری کی کتاب "منو کا قانون اور اسلامی قانون" پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ Vedic law کتنا استحصالی تھا۔ ذات پات کی شکل میں معاشرے پر بدترین غلامی مسلط تھی۔
کارل مارکس اپنی تحریروں میں AMP کا credit اسلام کو نہیں دیتا اس کی بنیادی وجہ مذہب کے بارے میں مارکس کے مخصوص نظریات ہیں مارکس مذہب کو سرمایہ دار کے ہاتھ میں موجود ایک ایسا ہتھیار قرار دیتا ہے جس سے وہ عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ ایک اسلامی نظام معیشت نہ سہی AMP سہی لیکن مارکس اس کو ایک مختلف معاشی نظام مانتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ مارکس نے سوشلزم میں بہت سے اصول AMP سے متاثر ہو کر داخل کیے ہوں
اب اسی مسئلے کو Economics کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔
معاشیات کی بنیاد درج ذیل پانچ سوالات ہیں۔
1- Why to produce?
2- What & how to produce? / Who owns & controls the factors of production?
3- Whom to produce?
4- How to define wants? / What makes the best use of resources to satisfy our wants.
5- How to exchange wealth?
اگر کوئی معاشی فلسفہ ان پانچ بنیادی سوالوں کے جواب دیتا ہے تو وہ ایک مکمل معاشی فلسفہ ہے۔ اپنی پچھلی پوسٹ میں میں مختصراً بیان کر چکا ہوں کہ اسلام کا ان پانچ سوالات کے بارے میں کیا نکتہ نظر ہے تو معاشیات کی رو سے اسلام ایک مکمل معاشی فلسفہ بیان کرتا ہے اور اس فلسفے کے مطابق ایک معاشی نظام ماضی میں کم و بیش ہزار سال تک قائم رہا ہے۔
باقی رہی یہ بات کہ "مولانا سندھی اور جمعیت علمائے ہند کے اکابرین نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ اسلام کے سیاسی نظام کے تحت سوشلزم کو ہی مسلمانوں کے نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔۔۔۔۔"
یہ ان بزرگ ہستیوں پر سراسر تہمت کے سوا کچھ نہیں۔ میں ان بزرگ ہستیوں کے بیسیوں ایسے اقتباسات پیش کر سکتا ہوں جس میں انھوں نے "اسلام کے معاشی نظام" کی نہ صرف term استعمال کی ہے بلکہ اس کا کیپیٹلزم اور سوشلزم سے موازنہ بھی کیا ہے۔
اور یہ دلیل تو منطقی طور پر بھی غلط ہے۔ اسطرح کی پیوندکاری کی ہی نہیں جا سکتی۔ جب کیپیٹلزم کے سیاسی نظام میں سوشلزم کے معاشی نظام کی پیوندکاری نہیں ہو سکتی اور سوشلزم کے سیاسی نظام میں کیپٹلزم کے معاشی نظام کی پیوندکاری نہیں ہو سکتی تو اسلام کے سیاسی نظام میں سوشلزم کے معاشی نظام کی پیوندکاری کیسے ہو سکتی ہے۔
اب آتے ہیں ایک آخری گزارش کی طرف کہ کیا اگر کسی معاشی فلسفے کے مطابق نظام نہ رہے اور دنیا نئے دور میں داخل ہو جائے تو کیا اس معاشی فلسفے کے وجود کا انکار کر دینا چاہیے؟ اور کیا اس معاشی فلسفے کے نئے دور کے تقاضوں کے مطابق دوبارہ احیاء کی کوشش کرنا غلط ہے؟
علم کوئی جامد چیز نہیں یہ بتدریح آگے بڑھتا ہے ہر نیا پیدا ہونے والا علم پہلے سےموجود تعلیم کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر ایجاد ہونے والی چیز کسی نئی ایجاد کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے۔ دور کے بدلنے کے ساتھ نظاموں کی الٹ پلٹ کا عمل جاری رہتا ہے۔ دور کے تقاضے بدلنے کے ساتھ نظام ختم بھی ہوتے ہیں اور ان میں تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں اور پرانے نظاموں کا نئے تقاضوں کے مطابق احیا بھی ہوتا ہے۔ اگر آج دنیا سے سوشلزم یا کیپیٹلزم ختم ہو جائیں تو کیا ان کے بحثیت نظام وجود کا انکار کر دینا چاہیے اور کیا ایسا کرنا دانشمندی ہو گی۔ کیا آج کیپٹلزم اور سوشلزم کی حالت اس ابتدائی خاکے سے یکسر مختلف نہیں جو Adam Smith اور Karl Marx نے دیے تھے اور کیا اس کے باوجود ہم ان کو کیپیٹلزم یا سوشلزم نہیں کہتے۔ اگر ہم تمام تر تبدیلیوں کے باوجود بھی ان نظاموں کو کیپیٹلزم اور سوشلزم کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو پھر اسلامی نظام معیشت کے ساتھ یہ امتیاز کیوں؟
واپس کریں