دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا یہ جناح کا پاکستان ہے؟
No image پاکستان 75واں یوم آزادی منا رہا ہے۔ 75ویں سن کو بدیسی شاید ڈائمنڈ جوبلی کہتے ہیں۔ عام آدمی یہ سمجھنے سے اب تک قاصر ہے کہ وہ آزادی کی 75ویں ڈائمنڈ جوبلی منائے یا اپنی نسلوں کی غلامی کی 75 ویں ڈائمنڈ جوبلی منائے؟آزادی سے پہلے ہم انگریزوں کے غلام رہے اور آزادی کے بعد انگریزوں کے غلاموں کے غلام بن گئے۔ ہمارے سیاستدان آج بھی انگریزوں کے وفادار ہیں۔ یہ لوگ آج بھی پاکستان سے زیادہ امریکا اور برطانیہ پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہماری قسمت کے تالے کی چابی ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس پر مہر بھی ثبت کردی کہ آئی ایم ایف کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ آئی ایم ایف جو کہے گا ہم وہیں کریں گے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت تو ہے مگر یہ حکومت پاکستان کےلیے نہیں بلکہ انگریزوں کی غلامی کےلیے ہے۔ آزادی کا نعرہ تو محض دل کو بہلانے کےلیے ہے۔ درحقیقت ہم کل بھی غلام تھے، ہم آج بھی غلام ہیں اور خدانخواستہ اگر حالات یہی رہے تو ہم کل بھی غلام رہیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے جسمانی طور پر تو غیر ملکی آقاؤں سے آزادی حاصل کر لی ہے مگر ذہنی طور پر ابھی بھی ان کے غلام ہیں اور ابھی بھی انہیں دیکھ کر ہماری اکثریت احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ہم اپنے ملک کو سنوارنے کی بجائے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں اور ہر ایک یہی سمجھتا ہے کہ ملک کو سنوارنا میرا نہیں بلکہ دوسرے کا فرض ہے جب کہ میرا کام تو ملک کو لوٹنا ہے جہاں تک اور جب تک ممکن ہو۔
ایک سوال جو 75 برسوں سے ذی شعور پاکستانیوں کے ذہنوں میں گونج رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا جناح نے ایسے پاکستان کو خواب دیکھا تھا جیسا کہ آج ہے؟ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جناح صاحب برطانوی پارلیمانی جمہوری طرز پر پاکستان کا آئین تشکیل دینا چاہتے تھے۔ علالت کیساتھ ساتھ مراجعت پسندانہ مطالبات اور بیانات نے بھی، جن کی پیشکاری میں وہ تمام ملا اور جاگیردار پیش پیش تھے جو بالخصوص قائداعظم اور تخلیق پاکستان کے خلاف تھے۔ وہ شورش بپا کی جس کی بازگشت آج تک ہمارے ایوانوں اور دالانوں میں سنائی دیتی ہے۔ ایسے ہی کچھ فرسودہ منش پیش اماموں نے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ "پاکستان بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس ملک کے مستقبل کا تعین بھی کر سکتے ہیں۔
وہ دیدہ ور ہستی جس نے پاکستان کو آسمانِ عالم پر ایک ماہ رو سیارے کی طرح دیکھا تھا جس کی تجلی مستقبل شناسا اور رفتار ہمسفروں سے بڑھتی ہوئی ہو نہ کہ اقوامِ عالم کی کٹڑیوں میں ٹھٹھرتی ہوئی ایک ضعیف ونحیف مملکت جس کا دامن دریدہ اور کاسہ گدائی میں نان و نفقہ کی گرسنگی مستقل۔ وہ اِس لئے کہ جناح صاحب کے نکتہِ نظر کے برعکس ہم نے صنعت وحرفت، سائنسی اور تکنیکی، سماجی اور معاشی بنیادوں میں نظریاتی پسپائی اور تاخیر کیساتھ ساتھ تشکیک اور مزاحمت بھی اںڈیلی۔ عوامی خدمات کی بجائے مفاد پرستانہ سیاست، گئے دِنوں کی معاشی انحصاریت اور نظریاتی گھن چکروں میں ہم جدید ترقیاتی ریاست کا سانچہ ڈھالنے میں ہچکچاتے رہے۔ نتیجتا” نہ ہم طبقاتی کشمکش سے آزاد اشتراکی ریاست بن سکے، نہ ہی فلاحی اور نہ ہی کلی طور پر سرمایہ دارانہ۔
جناح صاحب رائے عامہ کا اِستعارہ تھے۔ برملا کہتے تھے کہ "جمہوریت مسلمانوں کے لہو میں موجزن ہے” اور "میں مساوات، بھائی چارے اور انسانی آزادیوں یعنی لبرازم پر یقین رکھتا ہوں (دسمبر1946، لندن)”۔ ورنہ ہندوستانی مسلمان کم از کم پچاس سال بار بار انہیں اعتماد کا ووٹ نہ دیتے۔ لاکھ افسانہ طرازیوں کے باوجود کوئی اِس تحریر پر کچھ اور تحریر نہیں کر سکتا کہ جناح صاحب نے پاکستان کی بنیادیں لشکر کشی، جنگ وجدل یا حرب وضرب پر نہیں بلکہ پارلیمانی، جمہوری اور عوامی حکمرانی کے اصولوں پر اُٹھائی تھیں۔
یارت میں ایک روز فاطمہ جناح نے ان کی مرغوب غذا تیار کروائی جو انہوں نے بڑی رغبت سے کھائی مگر بھانپ کر فورا” پوچھا ۔ "فاطی، یہ کھانا کس نے بنایا ہے؟” "وہ ! بمبئی میں جو آپ کا باورچی تھا، اُس نے، ہم نے اُسے لائل پور سے ڈھونڈ نکالا ہے”۔ محترمہ نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا "اُس کے سفری اخراجات اور معاوضہ؟ ” قائد نے استفسار کیا۔” "حکومتِ پنجاب نے ادا کئے ہیں”۔ محترمہ نے گھبراتے ہوئے جواب دیا۔ انہوں نے فورا” ایک کاغذ نکال کر لکھ دیا کہ "تمام اخراجات ان کی جیب سے ادا کئے جائیں گے اور بالِاصرار کہا کہ” گورنر جنرل کسی ضابطے کے تحت ایسی مراعات کا حقدار نہیں ہے۔”
آخری ایام میں کراچی منتقل کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہاں وہ نواب بہاولپور کے بنگلے میں منتقل ہو جائیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ "مبادا روایت پڑ جائے”۔ لیگی چندے اور ریاستِ پاکستان کا ایک پیسہ انہوں نے کبھی اپنی ذات پر صرف نہیں کیا۔ سوال یہ ہے کہ جناح کا اپنی طاقت اور اختیارات کا ایمانیات کی حد تک پاکیزہ اصراف اور صاف دامانی جنس ونظر اپنا سا منہ لے کر کہاں جائیں؟۔ اس مردِ راست کردار وگفتار کے اُسوہِ اثر انگیز کی بخیہ گری کون کرے گا؟ جناح کی رائے میں تو ہم نے شاید ایمانداری اور فرض شناسی کے پہلے پائیدان پر بھی قدم نہ رکھا ہو۔ شاید سنی ان سنی کرنے یا پھر پہلوتہی کرنے کو ہی نوکر شاہی ہادیِ ملت کی زندہ پائندہ تصویر کو اپنی پُشت پر رکھتی ہے۔
عوامی خدمات کے اداروں کو اس سے بڑا پرسہ کیا دیا جا سکتا ہے کہ جہاں کارکردگی، انصاف پسندی، غیر جانبداری اور غیر متعصبانہ اقدامات بسترِ مرگ پر ہوں اور فرقہ، فقہ، ذات، رِشتہ اور معرفت دھرم آلودہ ہوں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تعزیت جناح صاحب سے کیجائے، افسر شاہی سے یا متفرق حکومتوں سے؟

بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں