دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جب سپریم کورٹ کے حکم پہ میرے خلاف ایف آئی درج ہوئی ۔ظفر حجازی
No image جب سپریم کورٹ کے حکم پہ میرے خلاف ایف آئی درج ہوی تو میں نے ٹرائل کورٹ میں ضمانت کی درخواست دی۔ میرے وکلا نے شاندار دلائل دئے۔جج صاحب فیصلہ محفوظ کر لیا۔میں اپنے وکلا کے ساتھ کمرہ عدالت سے باہر آ گیا۔ سب بہت اچھے دلائل پہ میرے وکیل آذد نفیس کی تحسین کر رہے تھے ‏۔اتنے میں ایک وکیل صاحب کمرہ عدالت سے باہر آے، انہوں نے مجھے بازو سے پکڑ کر ایک طرف ہونےکا کہا۔ مجھے کہنے لگے کہ آپ یہاں سے چلے جائیں، جج صاحب نے آپ کے درخواست مسترد کر دینی ہے۔ میں نے کہا وہ کیوں۔ کہنے لگے کہ ایف آی آر سپریم کورٹ کے حکم پہ درج ہوی ہے اور شاید جج صاحب ‏نے فیصلہ محفوظ ہی اس لیے کیا ہے کہ جب وہ آپ کی درخواست مسترد کریں تو آپ کے پاس ہائیکورٹ سے ضمانت لینے کا موقع ہو۔

میں نے ہنس کر کہا کہ جج صاحب تو پھر مجھ پہ بہت مہربان ہیں۔اگر میں یہاں سے چلا جاوں گا تو ٹی وی پہ خبریں چلیں گی کہ میں کمرہ عدالت سے فرار ہو گیا۔ میں یہ نہیں چاہتا۔ ‏میں تیز تیز قدموں سے چلتا گیلری میں کھڑے اپنے وکلا سے بات کئے بغیر کمرہ عدالت میں چلا گیا۔ میرے بعد میرے وکلا بھی کمرہ عدالت میں آ گئے۔ تھوڑی دیر بعد جج صاحب نے واقعی میری درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سنا دیا اور میں سکون سے ایف آی اے والوں کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ایک صحافی نے میرے متوازی چلتے ہوے سوال کیا کہ کیا آپ اسحاق ڈار کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنیں گے۔میں اس سوال پہ چونکا اور مجھے جسٹس عظمت سعید کے ایف آی آر کا زبانی حکم سناتے وقت وہ الفاظ یاد آ گئے کہ ان سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ انہوں نے کس کے کہنے پہ ریکارڈ ٹمپرنگ کی تھی۔

‏صحافی کے سوال سے مجھے اپنی گرفتاری کے مقصد کا پتہ چل گیا۔ میں نے سوال کے جواب میں اونچی آواز میں لاحول پڑھا۔اب میں ہہلے سے کہیں زیادہ مضبوط چٹان بن چکا تھا جس کا ایف آی اے کو پہلے دن ہی اندازہ ہو گیا جب انہوں نے مجھ سے ایک سوال اسحاق ڈار کے متعلق کیا۔ الحمدوللہ اس کے بعد ان کو اس ‏موضوع پہ مزید سوال کرنے کی جرات بھی نہ ہوئی۔
‏میں تو بابو قسم کا انسان تھا، ارشد شریف تو ایک عرصہ سے جوانوں کو ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے لیے تیار کر رہا تھا، اتنی جلد بکری ہو گیا۔
واپس کریں