دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عوامی حقوق تحریک ۔خان شمیم
No image دھرنا اور مذاکرات :پچھلے ایک ماہ سے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کا ضلع پونچھ بالخصوص اور باقی اضلاع کے لوگ بالعموم سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔یہ احتجاج بجلی کی لوڈشیڈنگ ، ظالمانہ ٹیکسز ، آٹے پر سبسڈی ، اسیران کی غیر مشروط رہقئی ، مجوزہ پندرھویں آئینی ترمیم اور مجوزہ ٹورازم اتھارٹی کے قیام کے حوالے سے تھا اس دوران پونچھ ڈویژن میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاون بھی ہوا ۔حکومت نے پہلے پہل بے حسی کا مظاہرہ کیا لیکن بالاخر مذاکرات کے لیے راضی ہوئی اور رات گئے راولاکوٹ میں آل پارٹیز پیپلز رائٹس فورم اور حکومتی ٹیم کے درمیان مذاکرات ہوئے اور ایک معائدے پر یہ مذاکرات ختم ہوئے اس معائدے پر اب مختلف تبصرے جاری ہیں کہیں اسے خوش آئند اور کہیں اسے لولی پاپ قرار دے رہے ہیں۔
معائدہ ایسا نہیں کہ اس پہ شادیانے بجائے جائیں اور نہ ہی ایسا کہ اس پہ سوگ منایا جائے تحریکوں میں جب مذاکرات کا وقت آتا ہے تو پھر تحریکوں کی قیادت ہی اسکی ذمہ دار ہوتی ہے کیونکہ انھی کے پاس مینڈیٹ ہوتا ہے تحریک میں ہزاروں لوگ شریک ہوتے ہیں اور ہر ایک کی خوائش کے مطابق مذاکرات کا نتیجہ نکلنا ناممکن ہے۔
یہاں بھی ایسا ہی ہے تنقید کا نہ تھمنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے تنقید کرنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے اور تنقید کسی فیصلے بھی ہونی بھی چاہیے کیونکہ تنقید سے کسی بات کے دوسرے پہلو پہ غور ممکن ہے لیکن تنقید مثبت پیرائے میں ہو تبھی یہ ممکن ہے ہمارے ہاں بھی ایسا ہی دو ماہ قبل بھی ایسی ہی تحریک پر جب لیاقت حیات نے معائدہ کیا تو یہی تیر و تفنگ اس پہ بھی چلے ڈیل کے الزامات لگے اور اب موجودہ دھرنے کے بعد بھی صورت حال یہی ہے حالانکہ اس بار قیادت مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں تھی اب اس کے سوا قیادت آسمان سے کہیں بھی نازل ہونے والی نہیں
تنقید میں قوم پرست کارکنان سر فہرست ہیں ہونے بھی چاہیں وہ لوگ تحریکوں کی جان ہوتے ہیں اور انکی توقعات بھی زیادہ ہوتی ہیں
لیکن ظاہر ہے ساری توقعات پوری ہونا ممکن نہیں ہوتا کہیں نہ کہیں کمی بیشی رہتی ہے
اس تحریک اور دھرنے میں مختلف الخیال لوگ شریک تھے بے حد اختلافات اور سوشل میڈیا ٹرولنگ کے باوجود یہ کافی منظم تحریک رہی کھڈ تھوراڑ کے پرتشدد واقعے کے علاوہ کافی پرامن تحریک تھی اور اسی کے باعث حکومت مجبور ہوئی تحریک ہر تشدد کا رنگ چڑھ جائے تو ریاستوں کے لیے اسے کچلنا زیادہ آسان ہوتا ہے
اس تحریک کو نہ پہلی سمجھا جانا چاہیے اور نہ ہی آخری جو لوگ عوامی حقوق کے علمبردار ہیں مزاحمتی کردار ہیں انکی لڑائی طویل ہے صبر آزما ہے اور کٹھن ہے انھیں کسی ایک تحریک سے مقاصد کے اصول کی سوچ کو بدلنا ہوگا ۔جب تحریکیں آپکی پارٹی کے پلیٹ فارم سے ہوں تو معاملہ الگ ہوتا ہے لیکن جب کسی فورم سے جدوجہد کا حصہ بنا جائے تو بہت ساری جگہوں پہ مصلحت کرنا پڑتی ہے ۔

راولاکوٹ دھرنا کافی منظم تھا لیکن ہمارے ہاں بڑی بیماری ہیکہ جن مشترکہ نکات پر یہ فورم بنتا ہے اسے چھوڑ کر ہم کہیں اور چلے جاتے ہیں راولاکوٹ میں بھی ایسا ہی ہوتا رہا کسی کو سینتالیس کے شہدا اور غازی یاد آ گئے اور کسی کو غدار اور یوں ہرممکن فوکس ہٹانے کا سلسلہ جانے انجانے میں جاری رہا رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ایسے لگ رہا تھا کہ ہم کہیں انقلاب فرانس کے دہانے پہ کھڑے ہیں
جہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہم سے ختم نہیں ہو رہی ، پچاس سالوں سے چوہتر کے ایکٹ سے ہم انتخاب لڑنے کے لیے الحاق کی شق نہیں نکلوا سکے وہاں ایکٹ کو ہی ختم کرنے اور کیا کیا کرنے کے مطالبے ہونے لگے
ایسا نہیں ہوتا نہ ہونا ہے ہمیں خیالات کی دنیا سے نکلنے کی ضرورت ہے محض کہہ دینے سے نہ کراچی معائدہ ختم ہونا ہے نہ ایکٹ چوہتر اسکے لیے کسی پالیسی کسی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جسکی آزادی پسند گروپوں کے ہاں شدید قلت ہے۔

آزادی پسند گروپ اپنی صفوں پہ نظر ضرور دوڑائیں اپنی جدوجہد کے طریقوں پر نظر ثانی کریں حالات کے مطابق پالیسیاں بنائیں اور سب سے بڑھ کر پینتالیس لاکھ آبادی کے اس خطے میں دو درجن گروپوں کے وجود کا کوئی منطقی جواز نہیں اس تحریک سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے
واپس کریں