دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صحیح کون ہے اور غلط کون ہے؟
No image قوم کو بیوقوف بنانے کی کوشش یہ نہیں تو اور کیا ہے کہ حزب اختلاف حزب اقتدار کے بارے میں گمراہ کن الزامات تراشتی اور قوم کو حزب اقتدار کے خلاف کرنے کی ہرممکن کوشش کرتی ہے۔ پھر وہی حزب اقتدار جب حزب اختلاف اور وہی حزب اختلاف برسر اقتدار آجاتی ہے تو دوسرا فریق وہی رویہ اور طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ اب تو قوم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آتا کہ صحیح کون ہے اور غلط کون ہے۔

ماضی قریب کو دیکھ لیں جب عمران خان برسر اقتدار تھے تو انہوں نے چور اور ڈاکو کی اتنی گردان کی کہ قوم کے کان پک گئے اور وہی گردان اب بھی جاری ہے۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔ کیس بنائے گئے، ان کو جیلوں میں ڈالا گیا، خواتین تک کا لحاظ نہ کیا گیا۔ انتہائی حد تک اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام کیا گیا۔ موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے تقریباً ساڑھے تین ماہ ہو چکے اس عرصہ میں عمران خان اور ان کی سابقہ حکومت پر مالی بدعنوانیوں کے متعدد الزامات لگائے گئے۔ آئین کی خلاف ورزی کا شور کیا گیا۔ لیکن ابھی تک عمران خان کے خلاف ان میں سے ایک مقدمہ بھی درج نہیں کیا جا سکا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بے بس ہے۔ کس نے ان کو بے بس کیا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا۔
ایسی صورتحال میں قوم بیچاری کو کیا پتہ کہ دونوں میں صحیح کون ہے اور غلط کون ہے۔ وہی طریقہ جو سابق حکومت نے بھی اختیار کیا عین وہی طریقہ موجودہ حکومت نے بھی اختیار کر رکھا ہے۔ وزیراعظم شہبار شریف نے تو خود فرمایا ہے کہ ان کو پہلے سے معلوم تھا کہ ملکی خزانہ خالی اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

انہوں نے صرف ملک بچانے کیلئے اپنی سیاست کی قربانی دے کر وزارت عظمیٰ قبول کی اور ملک کو بچالیا۔ یہ سب کیا ہے ملک تو اللہ کریم کے فضل سے بچا ہوا ہے اور بچا رہے گا۔عوام کا دیوالیہ نکل گیا ہے۔ آگے پتہ نہیں کیا ہوگا۔پنجاب کی چند ماہ کی وزارت اعلیٰ کیلئے دونوں فریقوں نے سیاسی، آئینی اور اخلاقی شیرازہ بکھیر دیا بلکہ ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس میں پنجاب کے عوام بھلائی کہاںہیں۔ ہاتھیوں کے مفادات کی اس لڑائی نے بے حال عوام کو کچل کے رکھ دیا ہے۔

دس دن میں کون کہاں بھیجا جاتا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سابقہ حکومت کے یہ دوہی تحفے ہیں۔ موجودہ والوں نے تو عوام کا بھرکس نکال دیا اور ہاتھیوں کی لڑائی ہنوز جاری ہے۔سب کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ورنہ بچھتائیں گے۔
فوج کا تو دونوں فریق یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ غیر جانبدار ہے۔ تو کیا پھر عدلیہ نے بے بس کیا ہے؟

ایس اے زاہد کے کالم’’ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان کس کا ؟‘‘سے اقتباس
واپس کریں