دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قائد کے بغیر مسلم لیگ
No image پیر فاروق بہاو الحق شاہ:میاں نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ ن کی حالت ان دنوں ایک کٹی پتنگ جیسی ہے کبھی کسی دیوار سے جا کر اٹکتی ہے اور کبھی کسی منڈیر کا سہارا لیتی ہے۔زمین پر ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو امیدوں کے لمبے بانس ہاتھوں میں پکڑے اس کا ووٹ بینک لوٹنے کی کوشش میں بھاگتے پھر رہے ہیں لیکن یہ جماعت اس سنگین خطرے سے بے نیاز خود کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔وفاق اس سے سنبھل نہیں رہا جبکہ پنجاب میں ’’صبح گیا یا شام گیا ‘‘کی کیفیت ہے۔ڈالر روز بروز اونچی اڑان میں ہے۔معیشت کا کوئی سر پیر دکھائی نہیں دے رہا۔پنجاب کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے مسلم لیگ نون کو شکست دے دی ہے لیکن یہ جماعت احساس زیاں سےبےپروا دکھائی دے رہی ہے۔مسلم لیگ کیلئے لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ اس کے پاس متفقہ بیانیہ تک موجود نہیں جبکہ عمران خان نے ان کے خلاف ایک مضبوط بیانیہ تشکیل دے رکھا ہے جسکا وہ صبح شام پرچار کر رہے ہیں۔مسلم لیگ ن کی صف اول میں ایک بھی ایسا شخص دکھائی نہیں دیتا جو اس بیانیہ کا توڑ کر سکے۔محترمہ مریم نواز مسلم لیگ کے ترکش کا آخری اور بہترین تیر ہیں لیکن پنجاب کے ضمنی انتخابات میں یہ تیر بھی نہیں چل سکا۔

پنجاب میں روز جو جگ ہنسائی ہو رہی ہے وہ اس جماعت کے کار پردازوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ہمارے سر پر سایہ فگن بوڑھا آسمان یہ منظر بھی دیکھ چکا ہے کہ میاں شہباز شریف کے بیٹے کی انتخابی مہم بلاول بھٹو زرداری کا والد چلا رہا ہے۔اس پورے ماحول میں پاکستان کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان میاں نواز شریف کی خاموشی باعث تعجب ہے۔ ماضی میں مقبول ترین رہنے والی جماعت اور اب بھی ملک کی بڑی جماعت کا یوں بے سمت ہونا ملکی سیاسی نظام کیلئےکوئی اچھی خبر نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست دانوں کی تربیت کا کوئی نظام موجود نہیں۔ ہمسایہ ملک چین میں اسکول کیسطح سے ہی سیاسی تربیت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے بچوں کی الگ انداز میں ٹریننگ ہوتی ہے اور پھر وہی تربیت یافتہ لوگ سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس نظام کی عدم موجودگی کے باعث نہ تو بزرگوں کی دانش سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی نوجوان خون کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔اب میدان سیاست ایک ایسے جوہڑ کی شکل اختیار کر چکا ہے جہاں نہ گدلے پانی کی نکاسی کا بندوبست ہے اور نہ ہی تازہ پانی کی آمد کا۔اس جامد صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی جماعت مسلم لیگ نون ہے۔جس شخصیت کو لوگ پسند کرتے ہیں وہ منظر سے غائب ہے اور جو منظر نامے پر موجود ہیں انکی کارکردگی انتہائی غیر متاثر کن ہے۔

ویسے تو 2018ءکے انتخابات کے بعد سے ہی غیر یقینی کی صورتحال چل رہی ہے۔کورونا وبا نے ملکی معیشت کی چولیں ہلا دی تھیں۔درآمدات اور برآمدات میں فرق ہوشربا تھا۔2019ءمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد معیشت کو بیساکھی تو ملی لیکن وہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہوسکی۔اپریل 2022 ءمیں عمران خان کے گناہوں کی مالا اپنے گلے میں ڈالنے سے قبل مسلم لیگ کے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا۔میاں نواز شریف سے ہزار اختلاف کرنے والے بھی انکی اس حکمت عملی کے معترف تھے کہ انکی قیادت میں مسلم لیگ نے ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعلان کیا،موٹر ویز بنیں، ملک کو آئی ایم ایف سے چھٹکارا ملا، دہشت گردی ختم ہوئی، آپریشن ضرب عضب مکمل ہوا۔آپریشن رد الفساد کا آغاز ہوا، لوڈشیڈنگ ختم ہوئی۔میاں نواز شریف کسی کھمبے کو ٹکٹ دیتے تو بھی جیت جاتا تھا اور’’ ملک میں اب تک کھمبے ہی جیتتے آ رہے ہیں‘‘۔تاہم اب نواز شریف کے بغیر ترقی معکوس کا عمل شروع ہے۔سابق وزیراعظم عمران خان جو عدم اعتماد سے قبل پسپائی اختیار کر چکے تھے وہ اب مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہیں۔حالیہ ضمنی انتخابات کے بعد انکی مقبولیت کا گراف مسلم لیگ نون سے دس فیصد بڑھ گیا ہے۔لوٹوں کے خلاف انکے بیانیہ کو عوام میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور مسلم لیگ نون کے امیج کو نقصان پہنچا ہے۔جناب عمران خان سوشل میڈیا کی طاقت سے ایک مرتبہ پھر مضبوط لیڈر بن کر ابھرے ہیں۔

سٹی لیول پر متحرک اور فعال نوجوان انکا ہراول دستہ ہیں جو انکے بیانیہ کا پرچم لیکر گلی کوچوں میں پھر رہے ہیں۔جبکہ نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ نون کے کارکنان لیڈرشپ سے نالاں ہیں اور لیڈر شپ کو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں۔ پنجاب میں نون لیگ کی تنظیم محض کاغذوں تک محدود ہے۔اضلاع اور تحصیلوں میں سالہا سال سے وہی لوگ براجمان ہیں۔اس وقت تنظیم بے جان اور لیڈر شپ غیر فعال ہے،نواز شریف کی عدم موجودگی میں سندھ کے مرد حر کا کردار سب کے سامنے ہے۔وہ پنجاب کے ایک وضع دار اور باعزت سیاسی گھرانے میں پھوٹ ڈال چکے ہیں۔انکا اگلا نشانہ شریف فیملی ہو سکتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان کی سیاست میں فعال کردار ادا کریں، خاموشی توڑیں۔وہ انتخابی سیاست سے بلند ہوکر پاکستان کے استحکام کیلئے کردار ادا کریں۔اور اگر انہوں نے جلاوطنی ختم کرنے کا فیصلہ نہ کیا تو مسلم لیگ ن چند شہروں تک محدود ہوجائے گی جو ملکی سیاسی نظام کے لئے برا شگون ہوگا۔
بشکریہ:جنگ
واپس کریں