دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
3 صوبوں کی ٹیل پر” ڈاکو ساز فیکٹریاں“
No image عبد القدوس۔ عالمی جنگوں اورملکوں کے دفاع کی سائنس میں ”اسٹریٹجک ڈیپتھ“ یعنی جغرافیائی گہرائی کا نظریہ بنیادی اہمیت رکھتا ہے اور پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ کسی ”سلم اینڈسمارٹ“ حسینہ عالم کی طرح اس کی کمر بہت پتلی ہے ، شاعرانہ حوالے سے دیکھا جائے تو یہ ایک بڑی خوبی اور بہت مثبت پہلو ہے لیکن دفاعی حوالے سے یہ ایک بہت بڑی کمزوری اور بڑا منفی پہلو گردانا جاتا ہے ۔ حالیہ یوکرین جنگ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی چند ہفتوں کے دوران ملکی دفاعی سسٹم بالکل مفلوج ہو جانے کے باوجود یہ اسٹریٹجک ڈیپتھ ہی تھی کہ جس کی وجہ سے روسی فوج کو ہر محاذ پر مسلسل مزاحمت کا سامنا رہا کہ جغرافیائی حوالے سے یوکرین ایک ”ریکٹ اینگل“ یعنی مستطیل نما ملک ملک ہے کہ جس کی کہیں سے بھی کمر پتلی نہیں ۔
پاکستان کی ” پتلی کمر“ ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد اور ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان میں اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور یہی وہ 2 تحصیلیں ہیں کہ جہاں ڈاکو راج اور اغوا برائے تاوان کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا رونا پی ٹی آئی کے باغی ایم این اے سردار ریاض محمود خان مزاری نے قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے دوران ایک بار پھر رویا ہے ، صادق آباد سے پیپلزپارٹی کے ایم پی اے ممتاز علی خان چانگ بھی اس حوالے سے کئی برسوں سے آواز اُٹھا رہے ہیں ، صادق آباد سے ہی پیپلزپارٹی کے ایم این اے مخدوم سید مرتضیٰ محمود وفاقی وزیر صنعت و پیداوار اورسکھر ڈویژن کی پاور فل سیاسی شخصیت سید خورشید احمد شاہ وفاقی وزیر آبی وسائل ہیں ، اس ٹرائی اینگل میں شامل تیسرے صوبے بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی سے جمہوری وطن پارٹی کے ایم این اے سردارشاہ زین بگٹی وفاقی وزیر انسداد منشیات ہیں ، گویا تینوں صوبوں کی ٹیل کے منتخب نمائندے اس وقت وفاقی و صوبائی حکومتوں میں شامل ہیں ، چند روز قبل آر پی او بہاولپور صادق علی ڈوگر نے دورہ رحیم یارخان کے دوران بتایا کہ جوائنٹ آپریشن کی تیاری ہو رہی ہے اور جلد پنجاب و سندھ پولیس مل کر یہاں بڑا آپریشن کریں گی ، جس میں رینجرز اور دیگر سیکورٹی اداروں کی معاونت بھی شامل ہو گی ۔
ایک طرف وفاقی وصوبائی حکومتیں اس ایریا میں بڑے آپریشن کی تیاریاں کر رہی ہیں تو دوسری طرف اس ایریا کی ”انڈر ورلڈ “ نے بھی اپنے پرانے ”اثاثوں“ کی مدد سے اس جوائنٹ آپریشن کی نئی بوتل میں پرانی شراب ڈالنے کا پیشگی انتظام کرنا شروع کر دیا ہے ، ضلع رحیم یارخان کے پانچ تھانے آباد پور ، بھونگ ، ماچھکہ ، احمد پور لمہ اور کوٹ سبزل ہر آپریشن میں ”فرنٹ لائن اسٹیٹس“ کا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ ایریا ایک طرف آٹا ، گندم ، چینی ، کھاد اور ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے حوالے سے اہم ہے تو دوسری کی طرف تینوں صوبوں کے اشتہاریوں اور اغوا برائے تاوان گینگز کی محفوظ پناہ گاہ بھی ہے ، مافیا راج اپنے چہیتے مبینہ ”ٹرائیکا برادری“ گروپ سے تعلق رکھنے والے تھانیداروں کو بار بار یہاں تعینات کرواتا رہتا ہے ، جٹ ، راجپوت اور بلوچ ”ٹرائیکا برادری“ سے تعلق رکھنے والے ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز اس ایریا میں ایک بار پھر کمان سنبھال چکے ہیں ، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی انسپکٹر ، سب انسپکٹرز اور اے ایس آئی پچھلے پندرہ بیس برسوں سے اسی ایریا میں تعینات ہیں اور پچھلے تمام آپریشنوں کی کچھ یوں ناکامی کا باعث بن چکے ہیں کہ ہر آپریشن کے بعد یہ علاقہ دوبارہ ”نو گو ایریا‘‘ بن جاتا ہے ۔ آج کل بھی ڈاکوﺅں اور اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ ایس ایچ اوز کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے ایک مبینہ سہولت کار سرور اندھڑ کا بھی بہت شہرہ ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس کے زیر استعمال مختلف موبائل سمز کا پچھلے چار پانچ برسوں کا ڈیٹا نکلوایا جائے کہ کون کون سا خطرناک ڈاکو سرغنہ اور کون کون سا پولیس آفیسر اس کے ساتھ رابطے میں رہتا ہے ؟
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہر آپریشن کے دوران ’’مافیا راج کے چہیتے‘‘ پولیس افسران ملی بھگت سے نچلے درجے کے جرائم پیشہ افراد کو پکڑ کر مبینہ مقابلوں میں پار کر دیتے ہیں اور ظاہر یہ کیا جاتا ہے کہ آپریشن کامیاب ہو گیا ہے ، لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ ایک دوسرے کا دست وبازو بنے خطرناک گینگ اور ان کے سہولت کار تھانیداروں و ڈی ایس پی صاحبان کا گٹھ جوڑ اسی طرح قائم رہتا ہے ، اور اس علاقے کی ” ڈاکو ساز فیکٹریاں“ اسی طرح چلتی رہتی ہیں ۔ نئی بوتل میں پرانی شراب والے اس فارمولے کے تحت پچھلے چند ہفتوں سے مبینہ پولیس مقابلوں والا ”پرانا ڈرامہ“ پھر شروع کر دیا گیا ہے ، اگر جوائنٹ آپریشن کی کمان بھی انہی پولیس افسران کو دی گئی جو پرانے چار پانچ آپریشنوں میں شامل رہ چکے ہیں تو حتمی نتیجہ بھی وہی پرانا ہی نکلے گا ۔ پرانی ترک کہاوت کی طرح کہ ”گندم بونے والے کو گندم ملے گی اور ”جو“ بونے والے کو ”جو“۔
رحیم یارخان کی ضلعی موبائل امن کمیٹی کے چیئرمین و ارکان علامہ عبدالرﺅف ربانی ، چوہدری محمد ریاض نوری ، غلام اصغر تقی اور محمد عمر اویسی نے بھی چند روز قبل ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا ہے کہ آپریشن شروع کرنے سے قبل ڈاکو گینگز کے ” ہم نوالہ و ہم پیالہ “ ایس ایچ اوز کی فوری طور پر ضلع بدر کیا جائے ، آپریشن توبہ سے آپریشن ضرب آہن تک پاکستان کی پتلی کمر کہلانے والے اس ایریا میں پانچ چھ بڑے آپریشن ہو چکے ہیں اور ہر بڑے آپریشن کے دوران دریائی علاقے کے غریب عوام اور کاشتکار ہی ” مشق ستم “ بنتے ہیں جس کی وجہ سے سکیورٹی اداروں اور پولیس کے خلاف نفرت کی سلگتی آگ مزید بھڑکنے لگتی ہے ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ”را“ سمیت دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں مقامی انڈر ورلڈ کے ذریعے یہاں ”برسر پیکار“ ہوں اور اپنے ”اثاثوں“ کے ذریعے ایک طرف ہر آپریشن کی ناکامی کا باعث بن رہی ہوں تو دوسری طرف اسٹریٹجک ڈیپتھ سے محروم پاکستان کی اس پتلی کمر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کیخلاف نفرت کے لاوے کو مزید بڑھکانے کی ”باریک وارادت“ ڈال رہی ہوں ؟ ملکی سلامتی کے ضامن اداروں کو نئے آپریشن کی صف بندی اور اجازت کے بڑے فیصلوں سے قبل ملکی دفاع پر اس کے طویل المدت اثرات پر بھی توجہ ضرور دینی چاہیئے ، بقول شاعر مشرق
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن ، اپنا تو بن
واپس کریں