دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریاست مدینہ کی خواہش اور دھوکہ کھاتی انسانیت
No image تحریر: خالد محمود عباسی :۔ریاست مدینہ کا تصور سہانی یاد کی طرح نوع انسانی کے اجتماعی لاشعور میں سمایا ہوا ہے۔یہی تصور “ریاست ہو ماں جیسی” الفاظ میں اپنا اظہار کرتا ہے۔ اصل میں اسی تصور کی رومانویت نے انقلاب فرانس کے لئے زمین ہموار کی تھی اور یہی تصور بالشویک انقلاب میں قوت محرکہ بنا تھا۔بہت کم لوگ واقف ہونگے کہ ‘ون پارٹی رول’ یا ‘ون پارٹی ڈکٹیٹر شپ’ کے پیچھے اصل سوچ یہ تھی کہ یہ “اکلوتی پارٹی” درحقیقت انتہائی رحمدل، حلیم الطبع اور درد دل رکھنے والے لوگوں کا مجموعہ ہو گی۔ لیکن حادثہ یہ ہوا کہ جو لوگ اس پارٹی کے ذریعے مسلط ہوئے وہ نوع انسانی کے لئے انتہائی ظالم اور سفاک ثابت ہوئے۔ ان کے عملی اقدامات نے تاریخ انسانی کی ایسی بدترین فسطائیت کی صورت اختیار کی جس کی مثال سابقہ ادوار میں ملوک بھی پیش نہیں کر سکے تھے۔المختصر کیمونزم کی چھتری تلے پہلے سے چلے آ رہے شخصی ملوکیت کے نظام نے ایک مخصوص گروہ کی بادشاہت کی صورت اختیار کر لی۔یہ گروہ نوع انسانی کے لئے بادشاہوں سے زیادہ بڑا ظالم ثابت ہوا۔درحقیقت یہی غیر فطری رویہ ہی اس کی ناکامی کی بنیاد بنا۔چنانچہ اس نظام کی بساط دنیا سے لپٹ چکی ہے اور اسکی یاد ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر باقی رہ گئی ہے۔

دوسری طرف ریاست مدینہ کی سہانے تصور نے جو دوسری صورت اختیار کی اسے “جمہوری نظام” کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔اگرچہ اس نے بھی بہت جلد سرمایہ داروں کی آمریت کی صورت اختیار کر لی لیکن اس کا جبر ایسے دجل کے ساتھ ہے کہ، بڑے بڑے ابھی تک اس کے فریب کا شکار ہیں۔یہ نظام فسطائیت سے زیادہ سوفسطائیت کا مظہر ہے۔یہ لاٹھی کی بجائے دلیل کے ذریعے اپنا الو سیدھا کرتا ہے۔ یہاں جبر کی جگہ دجل کارفرما ہوتا ہے۔ یہاں چھری سے نہیں میٹھی چھری سے کام لیا جاتا ہے۔ یہاں بتایا جاتا ہے ایسا کرنے میں آپ کا اپنا فائدہ ہے۔ یہاں بظاہر فرد کی آزادی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے لیکن اس کے دماغ کو تعلیم، پراپیگنڈے اور بیانیوں (narratives) کے ذریعے اسی رائے تک پہنچنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے جو شہہ دماغوں کے پیش نظر ہوتی ہے۔
یہاں پرانے وقتوں کی طرح بیڑیاں اور طوق نہیں پہنائے جاتے اور نہ ہی کیمونزم کی طرح اجتماعیت کی جکڑ بندیوں میں کسا جاتا ہے۔ بلکہ سہانے مستقبل کی امید کے کچے دھاگے سے بندھا فرد خود ہی کھچا چلا آتا ہے۔ ممتا کے جذبے سے سرشار ریاست پہلے ماں بن کر سہانے سپنے دکھاتی ہے، پھر اپنی اداؤں سے خیرہ کن سہولیات کا دیوانہ بناتی ہے، پھر بڑے ہی سلیقے سے اپنے نظام بینکاری کے ذریعے ان تعیشات کے حصول کی سہولت کاری کرتی ہے۔ اور آخر میں کسی ڈائن کی طرح ایسے جکڑ لیتی ہے کہ بدترین غلامی کے علاوہ صرف خود کشی ہی کا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔
ہندوستان میں خود کشی کرنے والے کسانوں کی یہی کہانی ہے۔پہلے ایسے بیج مہیا کیئے گئے جن کی پیدوار تو زیادہ تھی مگر انھیں اضافی پانی بھی درکار تھا۔جس کے لئے ٹیوب ویل لگانے کی ضرورت تھی۔اسے آسان بنانے کے لئے قرضے کے حصول کی سہولت دی گئی۔یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ اس بیج کی فصل ایسی نازک مزاج ہوتی ہے کہ معمولی بیماریوں کے خلاف بھی مدافعت نہیں کر سکتی لہذا سپرے کرنے پڑیں گے۔اس کے لئے مزید قرضہ لیے بغیر چارہ نہیں۔ پھر زندگی ایسے پھیر میں آ جاتی ہے کہ خودکشی ہی کے ذریعے اس بھنور سے نجات ملتی ہے۔

ملکوں کی سطح پر یہی کہانی ترقی پذیر ممالک کی ہوتی ہے۔سری لنکا اور پاکستان اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔اب ملک فتح کرنے کے لئے پرانے وقتوں کی طرح جنگیں نہیں مسلط کی جاتیں۔اب معاشی ترقی کے خواب بیچے جاتے ہیں۔اب مہاجن اور بنیا نہیں ہوتے بلکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہوتے ہیں۔جن کی پالیسیوں پر چل کر خود مختاری گروی رکھی جاتی ہے۔مہاجن کی جکڑ بندی سے نکلنے کے لئے گھر کے برتن نہیں بیچے جاتے نجکاری ہوتی ہے۔ اب میدان جنگ میں ہتھیار نہیں ڈالے جاتے بلکہ لیبیا کی طرح خود بکسوں میں بھر بھر کر حوالے کیے جاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ نظام جاری و ساری ہے اور اس کے مقابل کوئی دوسرا نظریہ حیات اپنے لیے کوئی جگہ نہیں بنا سکا تو اس کی اصل وجہ اس کی “ماں کی ممتا جیسی جمہوری قبا” ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اگر کسی کو اس ساحری کی کچھ سمجھ آتی ہے، تو وہ اپنا سارا غصّہ قبا پر نکالتا ہے جبکہ یہ قبا تو روح عصر ہے۔ایسے لوگ پھر عوامی حمایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔اس لیے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس قبا میں چھپی ڈائن کی اصلیت سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔یہ بتایا جائے کہ ممتا کی قبا میں ڈائن چھپی ہوئی ہے۔یہ بتایا جائے کہ “ریاست مدینہ” کے جامے میں ‘سرمایہ داروں کا شیطانی نظام’ منہ کھولے آپ کو نگل رہا ہے۔
واپس کریں