آئی ایم ایف اور پاکستان کا مستقبل کچھ زیادہ تابناک نظر نہیں آرہا۔ دنیا کے مالیاتی شاطر ایک طویل عرصہ سے مسلسل پاکستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ پاکستان ان کی چالوں سے نکلنے کیلئے اپنی چالیں چلتا آرہا ہے مگر اس وقت شطرنج کی بساط پر ہم بہت کمزور ہیں، کسی بھی وقت مات ہو سکتی ہے۔
ہر خانے سے شہ آتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسی صورت حال سے اور کئی ممالک بھی نبرد آزما رہ چکے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مات سے بچنے کیلئے انہوں نے کیا کیا۔ سب سے پہلے ایک نظر برازیل پر ڈالتے ہیں۔
برازیل پر غالباً 130 بلین ڈالر کا قرض تھا۔ وہ قسطیں ادا نہیں کر سکا تھا اور ڈیفالٹ کی طرف جا رہا تھا جس پر برازیل نے امریکہ، یورپی یونین اور آئی ایم ایف کو بڑا واضح پیغام دیا کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں کہ قرض کی قسطیں ادا کر سکیں یا اس قرض کا سود واپس کر سکیں۔ چونکہ یہ ادارہ کمزور ممالک کی معاشی بہتری کیلئے بنایا گیا ہے مگر اس کے ساتھ کام کرنے کے باوجود ہمارے حالات بہتر نہیں ہو سکے اس لئے ہمارا قرض ختم کیا جائے۔ جس پر امریکہ نے اور سودی پاورز نے برازیل کو کلئیر جواب دیا کہ آپ نے اپنا یہ سرمایہ سود سمیت واپس کرنا ہے۔ آپ کیلئے کوئی دوسری صورت موجود نہیں۔
جس پر برازیل نے قومی سطح پر ایک فیصلہ کیا اور کہا: ٹھیک ہے ہم آپ کوسرمایہ سود سمیت واپس کرتے ہیں مگر ہمارے پاس قرض واپس کرنے کیلئے صرف ایمزون کے جنگلات ہیں۔ دنیا کے سب بڑے جنگلات جنہیں’’ لنگز آف دی ارتھ ‘‘کہا جاتا ہے۔ ہم اس کی لکڑی کاٹ کر فروخت کریں گے اور جو ریونیو جنڑیٹ ہو گا اس سے قرضہ واپس کریں گے۔ سپرپاورز نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ایمزون کے جنگلات کاٹ دئیے گئے تو پوری دنیا میں خوفناک موسمی تبدیلیاں آجائیں گی۔ دنیا کو یہیں سے آکسیجن ملتی ہے۔بارشیں انہی جنگلات کےسبب ہوتی ہیں۔ آپ یہ جنگل نہیں کاٹ سکتے۔
برازیل نے کہا : بجا کہ یہ جنگلات لنگز آف دی ارتھ ہیں مگر یہ ممکن نہیں کہ ہم جو ان جنگلات کے مالک ہیں، قرض کی صورت میں قسطوں میں موت کو گلے لگائیں اور دنیا صاف شفاف ہوا میں سانس لے۔ خاص سوچ بچار کے بعد اہل ِسرمایہ نے اس بنیاد پر ان کا قرض 10سال کے لئے ڈیفرکردیا۔ یعنی برازیل نے دس سال تک اس رقم پر کسی قسم کا کوئی سود نہیں ادا کیا۔
ہمارے سامنے دوسری مثال ایکواڈور کی ہے جس پرغالباً 120 بلین ڈالر کا قرض تھا اور وہ ملک بھی تقریباً ڈیفالٹ کر نے والا تھا۔ دیوالیہ ہونے سے بچنے کےلئے وہاں موجود گورنمنٹ نے اسمبلی میں یہ بل پاس کیا کہ آئی ایم ایف سے یہ تمام قرض ماضی کی کرپٹ حکومتوں نے لئے تھے اور یہ سرمایہ عوام الناس پر خرچ نہیں ہوا۔ کچھ لوگوں کے ذاتی مفادمیں استعمال ہوا ہے یا کچھ لوگ اسے ملک سے باہر لے گئے لہٰذا ایسا کوئی بھی قرض جو ماضی میں کسی گورنمنٹ نے لیا تھا اور وہ ان لوگوں کے پرسنل بینیفٹ کی نذر ہوا، موجودہ گورنمنٹ اسے واپس کرنے کی ذمہ دار نہیں۔ یہ سرمایہ انہی لوگوں سے لیا جائے جو اس وقت پاور میں تھے۔ ایکواڈور کی حکومت اسی پوائنٹ پرانٹرنیشل کورٹ آف جسٹس میں گئی اور وہاں اپنا کیس جیت لیا۔ اس پر جتنا قرض تھا وہ ختم کر دیا گیا۔
کچھ عرصہ پہلے ہزاروں لوگ آئی ایم ایف کے خلاف ارجنٹائن کی سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ اس وقت ہوا جب آئی ایم ایف نے ارجنٹائن کو اپنی تاریخ کا سب سے بڑا قرض دیا۔ کوئی 56 بلین ڈالر کا۔ اس ڈیل کی تفصیلات عوام سے چھپائی گئی تھیں۔ عوام کو اس بات کا بھی شکوہ تھا کہ آئی ایم ایف قرض دے کر غریبوں کے خلاف زبردستی پالیساں مرتب کراتا ہے مگر امیروں کو وہی سرمایہ ملک سے باہر لے جانے کی اجازت دیتا ہے۔ ان احتجاجیوں نے بار باریہ مطالبہ کیا کہ ارجنٹائن آئی ایم ایف کے خلاف اس کیس کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جائے۔ یہ دیکھ کر کہ کہیں ارجنٹائن بھی عدالت میں نہ چلا جائے۔ آئی ایم ایف نےاس کے ساتھ حالات بہت بہتر کر لئے۔
یونان کے ساتھ بھی آئی ایم ایف نے کچھ ایسا ہی کیا تھا۔ مجھے وہ وقت یاد ہے جب یونان کی کسی اے ٹی ایم مشین سے 60 یورو سے زائد رقم نہیں نکالی جا سکتی تھی مگر کساد بازاری کے نتیجے میں وہاں جو احتجاج ہوا وہ کسی انقلاب جیسا تھا, وہاں بھی آئی ایم ایف کو اپنا رویہ بدلنا پڑا۔ قومیں متحد ہوں اور اپنے ملک سے مخلص تو کوئی کام مشکل نہیں ہوا کرتا۔
اس وقت ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آئی ایم ایف مستقبل میں پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرےگا۔ میں اکثر آئی ایم ایف کی شرائط دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اس کے مطالبات میں ٹیکس لگانےکا مطالبہ زیادہ تر تنخواہ دار طبقے یا غریبوں کے استعمال میں آنے والی چیزوں پر کیوں ہوتا ہے۔ وہ امیروں پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کیوں نہیں کرتا۔ برطانیہ اور امریکہ میں سال میں پچاس ہزار ڈالر کمانے والے کو چالیس فیصد سے زائد ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے جب کہ پاکستان میں سال میں ایک کروڑ روپے کمانے والے پر بھی چالیس فیصد ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔
آج پاکستان بہت نازک پوزیشن میں ہے۔ روپے کی قیمت مسلسل گرنے کے سبب اسی ایک سال میں ہمارا قرض تین گنا ہو گیا ہے۔ صرف ایک بلین ڈالر قرض دینے کیلئے آئی ایم ایف نےہمیں پریشان حال کر رکھا ہے۔ ایسی ایسی شرائط تسلیم کرائی ہیں جو ہماری خود مختاری پر سوالیہ نشان ہیں۔ ہمیں کچھ سوچنا ہوگا۔ ہمیں روس، چین، ایران اور ترکی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ہمیں آئی ایم ایف کے خلاف عالمی عدالت انصاف جانا ہوگا۔ اب جینے کیلئے ہمیں کوئی نہ کوئی ایساقدم ضرور اٹھانا پڑے گا جس کے سبب آئی ایم ایف دس پندرہ سال کیلئے ہمارا قرض معطل کر دے۔ یہ بھی سوچنا ہوگا کہ یہ جو اربوں ڈالر ہم نے قرض لئے تھے وہ کہاں گئے۔
بشکریہ: جیو نیوز
واپس کریں