دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہوا کیا؟ اور ہو گا کیا؟ ارشاد چندریگر
No image فواد چوہدری کہتے ہیں ہم 22 جولائی کو پنجاب میں حکومت بنائیں گے اور 23 جولائی کو رانا ثناءاللہ کے پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا دیں گے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ صوبے اور وفاق کے درمیان ایک خوفناک تصادم ہوگا جو کہیں مسلح شکل بھی اختیار کر سکتا ہے ۔ دوسری جانب معاشی عدم استحکام، ڈالر کی اونچی اڑان اور قرض کی ادائیگی کا دباؤ یہ تمام عوامل ملکر ایک خانہ جنگی کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اب باجوہ صاحب کے مزید نیوٹرل رہنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔

اپنے پیدا کردہ جن کو واپس بوتل میں بند کرنے کیلئے انہیں میدان میں اترنا ہی پڑے گا ۔ یہ شہباز شریف کے بس کا روگ نہیں۔ تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت بنانے سے روکنا ہوگا اور کپتان اور اسکی ٹیم کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنا ہوگا ۔ اور یہ صورتحال مزید گھمبیر بھی ہو سکتی ہے جب باجوہ صاحب لاڈلے کے خلاف ایکشن شروع کریں اور اس ایشو پر فوج تقسیم ہوجائے۔ ایسی صورت میں ریاست کی تحلیل کا عمل شروع ہو جائے گا اور ہم یوگوسلاویہ جیسے حالات کی جانب بڑھ رہے ہوں گے۔

ضمنی الیکشن سے قبل حمزہ شہباز نے ایک سو یونٹ تک بجلی مفت کرنے کا اعلان کیا ، وزراء اپنی وزارتوں سے استعفے دیکر الیکشن کمپین میں لگ گئے ، شہباز شریف نے پٹرول کی قیمت میں کمی کا اعلان کیا ، مریم نے پورا زور لگایا ۔ اسی وقت کھٹکا ہوگیا تھا کہ ن لیگ کو الیکشن میں مشکل پیش آرہی ہے اور انکی مرکزی قیادت کو صورتحال کا اندازہ ہے اسی لئے اپنے تمام تر آپشن اور وسائل استعمال کر رہے ہیں ۔ ن لیگ کو پنجاب کی سیاست کا چالیس سالہ تجربہ ہے وہ عوام کے بدلتے ہوئے تیور کو خوب اچھی طرح جانتی ہے ۔

انہیں اندازہ ہے کہ اس وقت انکا گراف نیچے ہے اور کپتان کا اوپر ۔ اسلئے وہ فوری الیکشن کرواکے کپتان کو دوبارہ وزیراعظم بننے کا موقع ہرگز فراہم نہیں کریں گے ۔ اسمبلی کی مدت میں ابھی ایک سال باقی ہے اس دوران اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور جس وقت اپنا گراف اوپر جاتے دیکھیں گے فورآ الیکشن کا اعلان کر دیں گے اور ویسے بھی پنجاب میں عوامی رحجان تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔ پیپلز پارٹی بھی سندھ میں آئینی مدت پوری کرنا چاہتی ہے ۔ کپتان ابھی صبر کرے آئندہ ایک سال تک گالم گلوج کرتا ہے تو کرتا رہے کسے پرواہ ہے۔

واپس کریں