چند ہفتے قبل امریکی بینک جے پی مورگن نے ایک ایسا خوفناک وارننگ پیش کی تھی جس نے کاروباری میڈیا کے علاوہ بمشکل ہی کہیں کوئی اور ہلچل پیدا کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر روس نے تیل کی برآمدات کو مکمل طور پر روک دیا تو عالمی معیشت کو اتنا بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے کہ اس سے تیل کی قیمت فوری طور پر چار گنا تک بڑھ کر تقریباً 400 ڈالر فی بیرل ہو جائے گی۔
عالمی منڈی میں یہ قیمت فی الحال تقریباً سو ڈالر فی بیرل کے آس پاس ہے۔
چونکہ دنیا اب بھی تیل پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے اس لیے (روسی اقدام سے) عالمی معیشت کو لگنے والا جھٹکا 1970 کی دہائی کے مقابلے کہیں زیادہ شدید ہو گا جو ہمیں ایک خوفناک کساد بازاری کی جانب دھکیل دے گا۔
لیکن خطرات اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔ رواں ہفتے روس نے پہلے سے شیڈول معمول کی دیکھ بھال کے لیے یورپ کو ’نورڈ سٹریم ون‘ پائپ لائن کے ذریعے قدرتی گیس کی سپلائی تقریباً مکمل طور پر بند کر دی۔
سپلائی کی یہ بندش صرف ایک مختصر مدت کے لیے سمجھی گئی لیکن جرمن حکومت کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ روس توانائی کے اس سرچشمے کو مکمل طور پر بند کر سکتا ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوتن نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران یورپ کو گیس کی ترسیل میں کمی کرنا شروع کر دی ہے، جس سے براعظم میں ایندھن کی قیمتیں مسلسل بلند ہو رہی ہیں۔
یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھ سکتا ہے اور اس کا اثر تباہ کن کیوں ہو گا۔
روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کے بعد سے زیادہ قیمتوں کی بدولت تیل اور گیس کی اضافی ادائیگیوں کی مد میں اربوں ڈالر کمائے ہیں۔
تیل اور گیس کی قیمتیں بین الاقوامی سطح پر طے کی جاتی ہیں اور اس منڈی میں روس بے تاج بادشاہ ہے۔ چونکہ عالمی سپلائی پہلے ہی اپنے نقطہ عروج پر ہے، اس لیے روس کی جانب سے پابندی فوری طور پر قیمتوں کو اس حد تک لے جائے گی جسے جے پی مورگن بینک نے ’تباہ کن‘ درجہ قرار دیا تھا۔
اگرچہ امریکہ کے پاس اپنے لیے تیل کا وافر ذخیرہ موجود ہے لیکن یورپ اب بھی بڑی حد تک روس پر انحصار کر رہا ہے۔ جرمن اور اطالوی صنعت خاص طور پر توانائی کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے مفلوج ہو جائے گی اور ہزاروں کمپنیوں کو تالے لگ جائیں گے۔
اس صورت حال میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو جائیں گے اور لوگوں کے بجلی، گیس اور ایندھن کے بل ناقابل ادائیگی سطح تک بڑھ جائیں گے۔ لاکھوں لوگ کھانا پکانے یا اپنی گاڑیاں چلانے کے متحمل نہیں ہوں گے۔
صدر پوتن پہلے ہی فوسل ایندھن کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں کئی یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی اس لیے بند کر دی ہے کیوں کہ وہ روسی کرنسی روبل میں ادائیگی نہیں کر رہے تھے آخر کار انہیں مجبور ہونا پڑا۔ وہ دنیا بھر میں (اجناس کی) قیمتیں بڑھانے کے لیے یوکرینی خوراک کی برآمدات بھی بند کر رہے ہیں۔
قدرتی گیس اب بطور ایندھن تیل کا مقابلہ کر رہی ہے جو جیو پولیٹکس کو نئی شکل دے رہی ہے لیکن یہ اس کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتی جیسا کہ بلومبرگ نیوز نے حال ہی میں رپورٹ کیا تھا۔
کچھ لوگوں کے خیال میں وہ بےوقوف ہی ہو گا، جو اپنی آمدنی کا ذریعہ منقطع کر دے لیکن روسی حکومت نے اس کے خلاف کافی رقم فراہم کی ہے۔ مزید یہ کہ پوتن کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے، یعنی اگلے سال تک جرمنی روس پر اپنا انحصار ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اچانک سپلائی بند کر کے پوتن تیل اور گیس پر انحصار کرنے والی معیشتوں کو زبردست جھٹکا دیں گے۔ سٹاک مارکیٹیں ڈوب جائیں گی اور ہزاروں کمپنیاں توانائی کی فراہمی کی متحمل نہ ہونے کی وجہ سے دیوالیہ ہو جائیں گی۔ لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور مغرب فوری طور پر یوکرین کو پیسے بھیجنے کی سیاسی خواہش کھو دے گا اور اس طرح پوتن جیت جائیں گے۔
لیکن یہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے، لیکن ہم کیا کر سکتے تھے اور اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔ مغربی حکومتیں صنعتی پیمانے پر شمسی اور ہوا سے بجلی تیار کرنے کے لیے ہنگامی حکم نامے جاری کر سکتی ہیں۔
وہ نئے شمسی اور ونڈ فارمز کی تیزی سے تنصیب کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں خاص طور پر خشکی پر۔ ماحول دوست توانائی کے فارم جلد اور سستے بنائے جاسکتے ہیں کیوں کہ ان میں اجازت نامے اور کلیئرنس حاصل کرنے میں سب سے زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔
وسیع پیمانے پر سولر اور ونڈ فارمز کو تیزی سے تعمیر کرنے سے ہماری بجلی کی سپلائی بہتر ہو جائے گی جس سے کھانا پکانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لیے درکار گیس کی فراہمی پر کم دباؤ پڑے گا۔ ہم الیکٹرک گاڑیاں خریدنے کے لیے مزید سبسڈی بھی دے سکتے تھے جس سے نقل و حمل کے لیے غیر ملکی تیل پر ہمارا انحصار کم ہوتا۔
اس کے بجائے مغربی حکومتیں اس تنازعے کے دوران حیران کن طور پر کم ہی متحرک دکھائی دی ہیں۔ ہم نے تیل اور گیس کی نئی یا متبادل سپلائی حاصل کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے میں مہینوں گزارے دیے۔ تیل یا گیس کے نئے شعبوں میں کوئی بھی تازہ سرمایہ کاری اتنی تیزی سے دھارے نہیں آئے گی۔ تیل یا گیس کی نئی فیلڈ تیار کرنے میں ایک دہائی تک کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
ہم نے فوسل ایندھن کو دوگنا کر دیا کیونکہ ہمارا سیاسی نظام ابھی بھی تیل اور گیس کی لابیز سے بھرا پڑا ہے۔ صرف کنزرویٹو پارٹی نے تیل کمپنیوں، پیٹرو سٹیٹس، ہوائی اڈوں اور کاروباروں سے 10 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ کے عطیات حاصل کیے ہیں۔
لوگوں کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ برطانیہ کتنا تیل اور گیس بحیرہ شمال سے نکالتا ہے کیوں کہ ان ذخائر میں زیادہ تر حصہ بین الاقوامی کمپنیوں کی ملکیت ہے اور ایندھن کی قیمتیں دنیا کے سب سے بڑے تیل اور گیس فراہم کنندگان یعنی امریکہ، سعودی عرب اور روس کے ہاتھ میں ہیں۔ ہمیں اس پر بہت کم خود مختاری حاصل ہے۔
وقت ختم ہو رہا ہے، نہ صرف پوتن کے لیے بلکہ یورپ کے لیے بھی۔ ہمیں صرف صدر پوتن سے ہی نہیں بلکہ ان کے سب سے طاقتور ہتھیار یعنی ان کے تیل اور گیس کی سپلائی کی بندش کے خطرہ کو بھی پہچاننا اور اس کے لیے تیار رہنا ہے۔
ہمیں ہنگامی حالت کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے اور خود کو فوسل ایندھن کی لت سے چھٹکارا دلانا ہوگا ورنہ لاکھوں لوگ اپنے روزگار سے ہاتھ دھو کر اس کی قیمت ادا کریں گے۔
سنی ہنڈل۔ بشکریہ:انڈیپنڈنٹ اردو
واپس کریں