سنگاپور کی بندرگاہ بمقابلہ گوادر: عالمی تجارت کا نیا کھیل

(تحریر : خالد خان)دنیا کی معیشتوں کی تشکیل میں سمندری تجارت ہمیشہ سے ایک کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہے۔ قدیم تہذیبوں سے لے کر یورپی مہمات تک، سمندری راستوں نے عالمی تجارت کی سمت کا تعین کیا۔ آج بھی، دنیا کی تقریباً 80 فیصد تجارت سمندری گزرگاہوں کے ذریعے ہوتی ہے، جس سے بندرگاہوں کی اہمیت مسلمہ ہے۔ اسی تناظر میں، سنگاپور نے توآس (Tuas) میں دنیا کی سب سے بڑی خودکار بندرگاہ بنانے کا اعلان کیا ہے، جو مستقبل میں عالمی بحری راستوں پر گہرے اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ یہ جدید ترین سہولت، جس میں خودکار کرینیں اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والے نظام شامل ہوں گے، تجارتی سامان کی تیز تر ترسیل کو ممکن بنائے گی۔ اس سے عالمی تجارتی مراکز میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہوں گے اور ابھرتی ہوئی بندرگاہوں، بشمول پاکستان کی گوادر بندرگاہ، کو سخت چیلنجز درپیش ہوں گے۔
چین، جو سمندری تجارت کی اسٹریٹجک اہمیت سے بخوبی واقف ہے، نے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) میں وسیع سرمایہ کاری کی ہے۔ اس راہداری کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو بحیرہ عرب میں واقع گوادر بندرگاہ سے جوڑنا ہے، تاکہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ تک ایک مختصر اور کم لاگت تجارتی راستہ حاصل کیا جا سکے۔ یہ منصوبہ نہ صرف چین بلکہ پاکستان کے لیے بھی بے پناہ اقتصادی فوائد کا حامل ہو سکتا ہے، بشرطیکہ گوادر عالمی تجارتی مرکز کے طور پر خود کو منوا سکے۔ تاہم، سنگاپور کی جدید بندرگاہ اگر عالمی شپنگ ٹریفک کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے، تو گوادر کی مسابقتی حیثیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ گوادر کو اپنی انفراسٹرکچر اور آپریشنل صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا تاکہ یہ عالمی تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک پرکشش مقام بن سکے۔
سنگاپور کی بندرگاہ کے عروج کے ساتھ ہی جغرافیائی سیاست (geopolitics) کے نئے زاویے بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ بظاہر یہ ایک تجارتی منصوبہ ہے، لیکن اس کے پس پردہ اسٹریٹجک محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور اسے بیجنگ کی جغرافیائی توسیع پسندی کے ایک آلے کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ واشنگٹن نے بارہا سی پیک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ منصوبہ جنوبی ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ ایسے میں سنگاپور، جو تاریخی طور پر امریکہ کے قریب رہا ہے، اگر ایک جدید ترین بندرگاہ قائم کر کے عالمی تجارتی بہاؤ کو اپنی طرف موڑ لیتا ہے، تو یہ چین کے سمندری اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ایک بڑی کوشش ہو سکتی ہے۔ اگر بڑے بحری جہاز اور شپنگ کمپنیاں سنگاپور کو گوادر پر ترجیح دیتی ہیں، تو اس کے نہ صرف سی پیک بلکہ چین کی مجموعی عالمی تجارتی حکمت عملی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
یہ سوال ابھرتا ہے کہ آیا سنگاپور کی یہ ترقی محض ایک اقتصادی قدم ہے یا اس کے پیچھے ایک وسیع جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کارفرما ہے، جو چین کی تجارتی راہداریوں کو کمزور کرنے کے لیے ترتیب دی گئی ہے۔ اگر عالمی تجارت کا جھکاؤ سنگاپور کی جانب ہو جاتا ہے، تو یہ گوادر سمیت کئی دیگر BRI منصوبوں کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ تاہم، چین ایک عالمی اقتصادی قوت ہے، اور وہ ایسی چالوں کو خالی نہیں جانے دے گا۔ بیجنگ کے پاس بے پناہ وسائل اور طویل مدتی حکمت عملی موجود ہے، جو اسے اس چیلنج کا مؤثر جواب دینے کے قابل بناتی ہے۔ اس کا امکان ہے کہ چین گوادر میں مزید سرمایہ کاری کرے، متبادل تجارتی راستے تلاش کرے یا خطے میں اپنا سفارتی اور اسٹریٹجک اثر و رسوخ مزید مضبوط کرے۔ پاکستان اور چین کو اپنی حکمت عملیوں پر ازسرِنو غور کرنا ہوگا تاکہ گوادر سمندری تجارت کے عالمی نقشے میں اپنی جگہ بنا سکے۔
پاکستان کو درپیش داخلی مسائل اس صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام، سیکیورٹی کے خدشات اور معاشی غیر یقینی کیفیات نے ملک کو اضطراب کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ چین نے سی پیک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، مگر بلوچستان میں چینی منصوبوں پر بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ حملے، خطے میں بے چینی اور گورننس کی کمزوری ان منصوبوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ اگر یہ مسائل برقرار رہے تو چین ایران کی چاہ بہار بندرگاہ یا وسط ایشیائی زمینی راستوں جیسے متبادل راستوں پر توجہ دے سکتا ہے، جو پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
دوسری جانب، امریکہ کے لیے یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ پاکستان اور چین کے درمیان خلیج کو مزید وسیع کرے۔ امریکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں، جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی دباؤ ڈال سکتا ہے، تاکہ ایسے سخت شرائط عائد کیے جائیں جو پاکستان کی معاشی آزادی کو محدود کر سکیں۔ مزید برآں، واشنگٹن خطے میں ایسے عناصر کی پشت پناہی کر سکتا ہے جو سی پیک سے منسلک منصوبوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو اپنی اسٹریٹجک سمت کا تعین کرنا ہوگا اور یہ یقینی بنانا ہوگا کہ وہ چین کے ساتھ اپنی شراکت داری برقرار رکھتے ہوئے امریکہ سے مکمل قطع تعلق نہ کرے۔
پاکستان کے لیے اب سب سے اہم چیلنج اندرونی استحکام کو یقینی بنانا اور اپنی بنیادی تنصیبات کے تحفظ کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ اگر گوادر کو ایک عالمی تجارتی مرکز کے طور پر ابھارنا ہے، تو نہ صرف سیکیورٹی کے موثر اقدامات ضروری ہیں بلکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا بھی ناگزیر ہے۔ اگر حکومت عملی اقتصادی پالیسیوں کو اپنانے میں ناکام رہی اور ملک میں عدم استحکام برقرار رہا، تو گوادر کی ممکنہ کامیابی ایک خواب ہی بنی رہے گی۔
پاکستان کے کئی پالیسی ساز اب بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ سی پیک چین کے لیے ناگزیر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بیجنگ کی عالمی اقتصادی حکمت عملی کا محض ایک جزو ہے۔ اگر امریکہ گوادر کی اسٹریٹجک اہمیت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوگا، جبکہ چین کے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ پاکستان اس عالمی بساط پر صرف چین کا ایک موکل (client state) بن کر نہ رہ جائے بلکہ گوادر کو ایک آزاد، مسابقتی اور پائیدار تجارتی مرکز میں تبدیل کرے، جو کسی بھی عالمی طاقت کے اثر سے آزاد ہو کر اپنی بنیادوں پر کھڑا ہو سکے۔
واپس کریں