دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یقیناً یہ سازش ہے!
سہیل وڑائچ
سہیل وڑائچ
تضادستان کیسے ہار سکتا ہے! یقیناً یہ بین الاقوامی سازش ہے، امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ تضادستان جیت جائے وہ اس خطے میں اپنے اسٹرٹیجک پارٹنر بھارت کو جتوانا چاہتا تھا۔ اسرائیل بھی تضادستان کی غزہ کے مسلمانوں کی حمایت پر ہم سے ناراض ہے بلا شبہ اس نے بھارت کو ہماری ٹیم میں پھوٹ ڈالنے کے حربے بتائے ہوں گے۔ بھارت نے کرکٹ میچ سے پہلے ہی منصوبہ بندی کر لی تھی۔ ایک رئیل اسٹیٹ مالک کی کار میچ میں بھیجی گئی جو پاکستانی کھلاڑیوں کے حواس کو مختل کرنے کے آلات سے لیس تھی پھر دبئی کا جُوا مافیا بھی سرگرم عمل تھا۔ امریکہ، اسرائیل اور بھارت نے اس مافیا کو بے شمار رقم فراہم کی اور اس امر کو یقینی بنایا کہ تضادستان کو بہ ہر صورت شکست سے دوچار کرنا ہے۔
یہ ایک بہت بڑی سازش تھی اس کا آغاز ’’رجیم چینج‘‘ سے ہوا تھا۔ اسی وقت بین الاقوامی طور پر یہ بھی طے ہو گیا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی میں تضادستان کو بھارت سے شکست دلوانی ہے وگرنہ تضادستان کو کون ہرا سکتا ہے؟ امریکہ نے ڈونلڈ لو کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ تضادستان میں سازش کے ذریعے حکومت بدلوائیں، ڈونلڈ لو نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے دوران اراکین اسمبلی کی جگہ انہی کے ہمشکل روبوٹس بھجوا دیئے، اگر امریکہ یہ جدید ٹیکنالوجی استعمال نہ کرتا تو اراکین اسمبلی عمران خان جیسے محب وطن وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کیوں کرتے؟ اب جب برسوں پہلے وزیر اعظم کو تبدیل کردیا گیا تو نئے وزیر اعظم کو امریکہ نے دبائو ڈال کر یہ پیغام دیا کہ آپ جو مرضی کریں مگر آپ نے کرکٹ ٹیم کو ہر صورت کمزور کرنا ہے، بس اس سازش کی اہم ترین کڑی یہ ہے۔ اس بین الاقوامی سازش کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے سی این این کے جنوبی ایشیا میں سابق نمائندے محسن نقوی کو تضادستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا اسکے بعد امریکی اسرائیلی اور بھارتی سازش پر عمل شروع ہو گیا، شاندار اسٹیڈیم دِنوں میں تیار کرکے جھوٹی امید پیدا کی گئی، موجودہ اور سابق کھلاڑیوں کو نوازا گیا ان کے منہ پیسوں اور عہدوں سے بھر دیئے گئے، یوں سازش کے سارے لوازمات پورے کر دیئے گئے۔
ہم تو دراصل ناقابل شکست ہیں ’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ سقوط بغداد ہو، سقوط غرناظہ ہو یا سقوط ڈھاکہ یہ ہمیشہ اغیار کی سازش کی وجہ سے رونما ہوئے۔ وگرنہ ہم تو دشمنوں سے زیادہ عقلمند اور بہترین اسلحے سے مالا مال تھے۔ ہم صدیوں سے کبھی خود نہیں ہارے ہمیں ہمیشہ ہروایا گیا ہے۔ اس سازش کو حتمی شکل بھارتی وزیراعظم مودی اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان میچ سے پہلے امریکہ میں ہونے والی ملاقات میں دی گئی، اس ملاقات کی خفیہ تفصیلات تو سامنے نہیں آئیں مگر بیرون ملک بیٹھے یوٹیوبرزان تفصیلات کی کھوج لگا چکے ہیں، جن کے مطابق اس ملاقات کا اصل ایجنڈا تضادستان کی کرکٹ ٹیم کو ہر صورت ہروانا تھا۔ دبئی چونکہ اسرائیل سے قریب تھا اس لئے نیتن یاہو کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ اس ناپاک منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ پاکستانی یوٹیوبر نے دو یہودیوں کو دبئی کے مال میں سازشی عزائم کے ساتھ چلتے پھرتے خود دیکھا ہے جس سے اس ساری سازش کی کڑیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں۔ اس سازش سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت غدار ہے، پی سی بی غدارہے، چیئرمین خریدا ہوا ہے سلیکشن کمیٹی کے کرکٹر عالمی گٹھ جوڑ کا شکار ہو گئے، یہ سب نااہل ہیں سب غلط ہیں، ہم ہارے ہیں تو یقیناً عالمی اور تضادستانی سازش سے۔
تضادستانی ذہن میں شک وشبہ اور سازش کا غلبہ ہے مگر دوسرا رخ ضرور دیکھنا چاہئے۔ دنیا بھر میں قومی ٹیم کی شکست قومی صدمہ ہوتا ہے مگر شکست میں سازش کی بجائے حقائق کو زیر غور لایا جاتا ہے۔ صاف اور منطقی ذہن سے جائزہ لیا جائے تو پاکستانی کرکٹ ٹیم کا مہارت، کارکردگی اور اعتماد میں بھارتی کرکٹ ٹیم سے کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ بھارت کے کھلاڑی پروفیشنل ہیں وہاں کرکٹ کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔ پاکستانی کسی معجزے کے انتظار میں تھے جو آج کی دنیا میں کم کم ہوتے ہیں، پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی اور ان کے ہمراہی سمیر سید اور سلمان نصیر بار بار رائل باکس کی مسجد میں جا کر دعائیں کرتے تھے، شہباز شریف کی بیٹی خدیجہ اپنے خاوند کے ہمراہ کسی پاکستانی کھلاڑی کے آئوٹ ہونے پر آنسو بہاتی تھیں، آصفہ بھٹو، بختاور اور ان کے خاوند محمود پاکستانی کھلاڑیوں کے چوکے، چھکے پر کھڑے ہوکر تالیاں بجاتے تھے، عمران خان کا صاحبزادہ شاہد آفریدی کے ساتھ سیلفیاں بنا رہا تھا مگر بقول مرحوم و مغفور نوابزادہ نصراللہ خان ’’بلائیں بھی کبھی دعائوں سے ٹلی ہیں‘‘ آج کی عملی دنیا میں تجربہ، پروفیشنلزم اور مصمم ارادہ ہی فتح دِلا سکتا ہے۔ پاکستانی کھلاڑی ان حوالوں سے بھارت سے بہت پیچھے تھے اس لئے ہار سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے، پاکستانی ٹیم جیت جاتی تو یہ معجزہ ہوتا اس پر یقیناً حیرت ہوتی۔ پاکستانی کرکٹ کا ڈھانچہ بھارت سے بہت کمزور ہے ہمارے کھلاڑی خود رو ہیں ،کسی منظم ٹریننگ اور سسٹم سے نہیں آتے۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کرکٹ کا میرٹ پر مبنی کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں، ماضی میں بینک اور سرکاری ادارے کرکٹرز کو اچھی ملازمت دے دیتے تھے اور کھلاڑی اپنے روزگار سے بے فکر ہوکر کھیلتے تھے وہ نظام بھی دم توڑ چکا ہے۔ صدمہ بجا مگر جب ٹیم ہی کمزور تھی تو پھر شکست تو یقینی تھی۔ اس کا بہترین حل خود احتسابی ہے ٹیم کے چنائو میں کم سپنرز، آل رائونڈرز کا نہ ہونا، کھلاڑیوں میں عزم اور ٹیم سپرٹ کے فقدان کا جائزہ ضروری ہے، بے تیغ لڑنے کا زمانہ لد چکا، دعائوں سے بلائیں نہیں ٹلتیں سازش سازش کرنے سے کمزوریاں نہیں چھپتیں۔ آخر میں آنسو پونچھ لیں کہ 29 سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ واپس آئی ہے، خوش ہوں کہ نئے اسٹیڈیم بن گئے ہیں، لہٰذا دکھی ہونے کی بجائے کرکٹ، کھلاڑیوں اور ان کے ہنر کو بہتر کرنے پر جُت جائیں۔ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے آج ہارے ہیں تو پہلے جیتتے بھی رہے ہیں، آئندہ اچھی تیاری کریں گے تو جیت بھی جائیں گے۔
واپس کریں