سہیل وڑائچ
کسی کو ہے، تو ہوتا رہے، مجھے تو ذاتی طور پر کوئی شک شبہ نہیں کہ قائداعظم پاکستانیوں کی غالب اکثریت کے محبوب ترین رہنما ہیں اور ہم میں سے اکثر ان کو اپنے ملک کے لئے آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ عسکری بھائی نے ان کے مزار پر 24گھنٹے ڈیوٹی سنبھال رکھی ہے صبح و شام وہاں تازہ دم دستے سلامی دیتے ہیں یعنی کہ پاک فوج دل و جان سے قائداعظم اور ان کے تصورات کو اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہے۔
اسی طرح تمام سیاسی، مذہبی اور معاشرتی گروہ ہوں یا تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے ہر جگہ قائداعظم کی تصویر کی موجودگی اور مقبولیت اس بات کا مظہر ہے کہ تمام تر سیاسی، مذہبی اور اداراہ جاتی اختلافات کے باوجود قائداعظم کی ذات اور ان کے آئیڈیلز پر سب کا اتفاق رائے ہے۔ برسراقتدار جماعت، تو اپنے آپ کو قائداعظم کی وارث سمجھتی ہے اور ایک زمانے میں جب نواز شریف کا طوطی بولتا تھا تو ان کے خوشامدی انہیں قائداعظم ثانی کہا کرتے تھے۔
غالباً دونوں کی تاریخ پیدائش ایک، اور دونوں کی جماعت ایک ہونے کو اس خطاب کی بنیاد بنایا جاتا ہوگا۔ آج کی بڑی حریف جماعت، تحریک انصاف عمران خان کو جناح ثانی ثابت کرنے پر تلی رہتی ہے۔ جناح صاحب اور عمران خان کی ایک جیسی تصویریں لگا کر یہ علامتی اعلان کیا جاتا ہے کہ عمران خان دراصل جناح صاحب کا دوسرا جنم ہے جو ان کا ادھورا کام مکمل کرے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے زمانہ طالب علمی کے خطوط یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بھی قائداعظم کے فلسفے سے متاثر تھے۔ جماعت اسلامی والوں پر ماضی میں تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے کے الزامات تھے مگر اب وہ کئی دہائیوں سے اس الزام کو رد کر کے یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ وہ بھی قائداعظم کی بصیرت کو مانتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن کے آباؤ اجداد اور باچا خان خاندان جناح صاحب اور پاکستان کے خلاف تھے لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بھی اس نئی حقیقت کو تسلیم کر لیا اب ان کی تحریک پاکستان کی مخالفت تاریخ کا ایک بھولا بسرا باب تو ہے آج کے حقائق سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ دونوں جماعتیں مشرف بہ پاکستان ہو کر اقتدار سے کئی بار سرفراز ہو چکیں اور یوں جناح صاحب اور انکے پاکستان کو مجبوراً ہی سہی تسلیم کر چکی ہیں۔ اس ساری تفصیل سے طے ہوگیا کہ قائداعظم غالب اکثریت کے محبوب رہنما ہیں اب جمہوریت کے تقاضوں کو جاننا بھی ضروری ہے۔
ہمارے خطےمیں محبوب کو خوش رکھنا محبت کا اولین تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ بلھے شاہ تو محبوب مرشد کو خوش کرنےکیلئے ناچنے تک پر یقین رکھتے تھے، امیر خسرو کا نظام الدین اولیاء اور شاہ حسین کا مادھو کے لئے والہانہ پن اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ ہم پاکستانی جنکے محبوب قائد اعظم ہیں، ہمیں بھی دیکھنا ہوگا کہ قائداعظم ہم سے خوش ہیں یا نا خوش؟
ایک بات تو یقینی ہے کہ دو روز سے قائداعظم عالم ارواح میں بیٹھے اپنے پسندیدہ سگریٹ CRAVEN A کے کش لگاتے ہوئے ارشد ندیم کے اولمپک میڈل جیتنے پر ضرور خوش ہوں گے مگر کیا وہ پاکستان کے عمومی حالات پر بھی خوش ہیں، اس کو جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں مگر حال ہی میں وینکٹ دھولی پالا کی ایک نئی کتاب Creating a new Medina نے اس سوال کا جواب بالکل آغاز ہی میں دیا ہے جو بہت ہی دلچسپ، ناقابل ِاعتماد، ماورائے عقل مگر قابل یقین ہے ۔
نقل ِکفر ،کفر نا باشد ، دھولی پالا لکھتے ہیں ’’میں برٹش لائبریری کے انڈیا آفس کا غذات دیکھ رہا تھا کہ مجھے ایک غیر متوقع دستاویز ملی یہ دراصل قائداعظم محمد علی جناح کے پرائیویٹ پیپرز کی مائیکرو فلم تھی، ہاتھ سے لکھی ہوئی اس دستاویز کی سیاہی مدہم ہو چکی تھی، اس دستاویز کے مطابق 13مارچ 1955ء کو یعنی قائداعظم کی وفات کے سات سال اور قیام پاکستان کے آٹھ سال بعد عملیات کے ذریعے ان کی روح سے ملاقات اور ان سے بات چیت کی گئی۔ روح کو حاضر کرنے کا یہ عمل ایک ماہر روحانیات کے ذریعے ہوا اور اس کا اہتمام ایک سرکاری افسر جناب ابراہیم نے کیا۔
جناب ابراہیم حاضرات کے اس عمل میں سوالات کیلئے خود موجودتھے۔ ماہر روحانیات نے قائداعظم سے ان کی صحت اور حالات کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک بڑی روشن جگہ پر مقیم ہیں جہاں ہر طرف پھول ہی پھول ہیں جبکہ اسی ماہر روحانیات سے ماضی کی ملاقات میں قائداعظم نے شکایت کی تھی کہ وہ ٹھنڈی اور اندھیری جگہ پر ہیں مگر اس ملاقات میں وہ بہت خوش نظر آئے۔ روح قائد سے پوچھا گیا کہ بانی پاکستان کی حیثیت سے کیا آپ اب بھی ملک کی رہنمائی کرنا پسند کریں گے؟ روح نے تلخی سے جواب دیا کہ اب پاکستان کی رہنمائی کرنا یا ہدایت دینا ان کا کام نہیں اور ساتھ ہی قدرے افسوس سے کہا کہ وہ اکثر پاکستان کے حالات کی بری تصویروں اور واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
سوال کرنے والے سرکاری افسر جناب ابراہیم نے پریشان ہو کر پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں خوشحالی کا مستقبل نہیں ہے؟ روح نے جواب دیا میں ایسا نہیں دیکھتا کیونکہ خوشحالی کیلئے اقتدار پر فائز لوگوں کو اپنی انا اور خود غرضی کی قربانی دینا پڑتی ہے مگر یہاں کے بڑوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو خودغرضی اور انا سے پاک ہو۔ جناب ابراہیم نے پوچھا کہ آپ پاکستان کے حکمران طبقات کو کیا نصیحت کرنا چاہیں گے روح نے فوراً جواب دیا بےغرضی اور بس بے غرضی اور پھر کہا کہ ملک کو حاصل کرنا آسان ہوتا ہے مگر اس کی آزادی اور سالمیت کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل‘‘۔ یہ کہانی کتنی ہی بے سروپا، خلاف مذہب و عقل ہو یا مسٹر ابراہیم کی ذہنی اختراع ہی کیوں نہ ہو حقیقت تو یہ ہےکہ قائداعظم کی روح نے جو سوالات 1955میں اٹھائے تھے وہ آج بھی حل طلب ہیں۔ موجودہ سیاسی، معاشی، عدالتی اور انتظامی بحران سراسر انائوں اور خودغرضی کی لڑائی ہے اگر انا اور خود غرضی کو قربان کر دیا جائے اور ہر کوئی اپنی پوزیشن سے تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹ جائے تو سب کی فتح ہو سکتی ہے ہمیں کسی کی ہار مطلوب نہیں سب جیتیں گے تو پاکستان جیتے گا۔
تاریخ کا یہ سبق کس کے علم میں نہیں کہ لڑائی، مار کٹائی، کشیدگی، گرفتاریاں، جیلیں اور اداروں میں تناؤملکوں کا راستہ کھوٹا کرتے ہیں مفاہمت، مصالحت اور امن خوشحالی کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی مصالحت اور مفاہمت ہی بحرانوں کا خاتمہ کر سکتی ہےبس سب ایک ایک قدم پیچھے ہٹ جائیں۔ ہم دیوانے بے عقلوں کو خواب دیکھنے کی بری عادت ہوتی ہے شکر ہے کہ یہاں خواب دیکھنے پر پابندی نہیں گورنمنٹ آف نیشنل یونٹی کو بھی ایک یوٹوپیائی خواب سمجھ لیں مگر یہ سب سے قابل عمل حل ہے اور اس میں سب کی جیت اور فائدہ ہے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کا ہے۔
بنگلہ دیش میں مفاہمت کی بجائے 15سال سیاسی آمریت چلائی گئی معاشی استحکام تو ملا مگر ایک ہی ماہ میں سیاسی انتشار نے معاشی استحکام کو اڑا کر رکھ دیا ہوگا۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ کوئی بھی جماعت آمادہ ِفساد نہیں۔ خان کو بھی پتہ ہے کہ فوج سے لڑائی ہوئی تو پاکستان دوسرا لیبیا، مصر یا شام بن سکتا ہے۔
میرے ذاتی خیال میں محمود اچکزئی بڑے معتدل اور قابل قبول سیاستدان ہیں انہیں اتحادی قومی حکومت کا وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے ۔ اسمبلی میں ہی موجود نون کیلئے وزیراعظم کے امیدوار ایاز صادق ہو سکتے ہیں وہ عمران کے پرانے کلاس فیلو اور دوست رہے ہیں۔ نواز شریف کے بھی پسندیدہ ہیں۔ ان کے علاوہ جو بھی سب کا متفقہ امیدوار ہو سب کیلئے قابل قبول ہوگا۔ بس آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
واپس کریں