دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کون جیتا؟ کون ہارا؟؟
سہیل وڑائچ
سہیل وڑائچ
دنیا بھر میں کھیل، سیاست اور انتخابات میں ہار اور جیت بڑی واضح ہوتی ہے مگر میرے پیارے اور پسندیدہ تضادستان میں جیت اور ہار کے تصورات دنیا بھر سے الگ ، نرالے،انوکھے اور منفرد ہیں۔ یہاں جو جیتتا ہے اسے یقین نہیں ہوتا کہ وہ صحیح جیتا ہے یا کسی نے اُسے جتوایا ہے دوسری طرف جو ہارتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اسے ہرایا گیا ہے، اصل میں تو وہ جیتا ہوا تھا۔ 24نومبر کے احتجاج کے حوالے سے بھی فریقین یعنی ریاست اور عمران خان دونوں اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کریں گے اور دونوں کے پاس اپنے اپنے حامیوں کی تسکین کیلئے وزنی دلائل بھی موجود ہونگے۔ ریاست کہے گی احتجاج ناکام ہوگیا ، تحریک انصاف کہے گی کہ راستے بند کرکے اور پابندیاں لگا کر حکومت ہار گئی اور وہ جیت گئی۔ میری رائے میں 24نومبر کو ریاست بھی جیت گئی اور تحریک انصاف بھی۔ ہاں البتہ شکست ہم تضادستانیوں کی ہوئی ہے جنہیں آئے روز بحرانوں کا سامنا ہے اور سیاسی استحکام قائم نہیں ہو پارہا۔تضادستان میں آج کل جوکچھ بھی چل رہا ہے اس میں مجموعی طور پر سیاست ہار رہی ہے اور مقتدرہ جیت رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کسی تصفیے پر نہ پہنچنا اور مصالحت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہونے کے سبب سیاستدانوں کا طاقت کے ایوانوں میں کردار بہت ہی کمزور ہوگیا ہے اور ریاستی اداروں نے سیاستدانوں سے فیصلے کروانے کی بجائے فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ شہباز شریف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور وزیر اعظم ہیں، کیا 24 نومبر کے احتجاج کو روکنے کی منصوبہ بندی انہوں نے کی؟کیا فیصلہ سازی کو لیڈ انہوںنے کیا؟ کیا لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ وہ کر رہے تھے؟ میرا نہیں خیال کہ سرسری بریفنگ کے علاوہ ان معاملات سے ان کا کوئی سروکار بھی ہے، گویا فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور کوئی اور کر رہا ہے؟
جیل میں بیٹھے کپتان اور مسند اقتدار پر بیٹھے شہباز شریف آہستہ آہستہ کمزور ہوئے۔ عمران خان کے زمانے میں ہی اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس چلے گئے تھے اب بھی وہی حال ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اختیارات بڑھ گئے ہیں نونیوں، پیپلیوں اور انصافیوں نے اقتدا ر کے لالچ میں سویلین بالادستی کو سرنڈر کردیا ہے انکی بڑھتی ہوئی کمزوریاں سویلین سیٹ اپ کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔آیئے اب 24نومبر کو جیت اور ہار کا تجزیہ بھی کرلیں۔ جوں جوں 24نومبر کی تاریخ قریب آتی گئی سیاسی ہیجان بڑھتا چلا گیا مگر اسٹاک مارکیٹ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور وہ چڑھتی گئی حالانکہ اسٹاک مارکیٹ اتنی حساس اور نرم و نازک ہے کہ پٹاخہ بھی پھوٹے تو یہ کریش ہو جاتی ہے گویا کاروباری طبقے کو اس کال سے کوئی سروکار نہ تھا وہ لاتعلق تھا بلکہ ردعمل میں سرمایہ کار بڑھ چڑھ کر اسٹاک خرید رہے تھے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کاروباری طبقے کی ساری امیدیں مقتدرہ اور اسکے سربراہ جنرل عاصم منیر سے وابستہ ہو چکی ہیں ۔ سیاستدانوں سے وہ کافی حد تک مایوس ہو چکے ہیں اور اس مایوسی کی بڑی وجہ سیاستدانوںکی بے اختیاری اور عدم توجہی ہے۔ الیکشن 24سے پہلےایسا نہیں تھا ،انکی امیدیں سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھیں ۔پنجاب کے دس بڑے صنعتکاروں نے الیکشن سے پہلے ایک کنسورشیم بنایا ہر ایک نےفی کس دس کروڑ روپے ڈالے اور پھر گروپ کی شکل میں جا کر نواز شریف کو الیکشن کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم پیش کی۔ اس کنسورشیم میں زیادہ تر نون کے حامی تھے مگر وہ بھی تھے جنہیں یہ امید تھی کہ نون لیگ آئے گی تو معیشت بہتر ہوگی اور بڑے بڑے فیصلے ہونگے لیکن کاروباری طبقہ اب نون کی طرف نہیں بلکہ مقتدرہ کی طرف متوجہ ہے ۔جنرل عاصم منیر خود دو بار کراچی کے کاروباری طبقے سے مل چکے ہیں ،لاہور والوں سے بھی ایک بار مل چکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ کام جو وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے کرنے کے ہیں وہ آرمی چیف کر رہے ہیں۔مجموعی طورپر اہل سیاست اپنی کوتاہیوں، غلطیوں اور کچھ مقتدرہ کی مہربانیوں سے تیزی سے غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ 24نومبر پرامن گزرتا ہے یا خونیں، دونوں صورتوں میں اہل سیاست چاہے وہ نونی ہوں یا انصافی، وہ ہارے ہیں اور مقتدرہ اور اسکی پالیسیاں جیتی ہیں۔ مقتدرہ تو متحد اور یکجا ہے اہل سیاست بکھرے ہوئے اور منتشر ہیں ،ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں ایسے میں سویلین بالادستی کہاں ہوگی؟ معیشت، حکومت کیسے چلائے گی؟ یہ بھی مقتدرہ اور ایس آئی ایف سی کے منقش ٹوکرے کی زینت بن چکی ہے۔
کپتان خان نے 24نومبر کو کیا کھویا کیا پایا؟ انصافیوں کی نظر سے دیکھیں تو وہ ہر صورت میں جیتا ہوا ہے، وہ ہار بھی جائے تو اخلاقی فتح اسی کی ہے، مادی شکست بھی ہو جائے تو روحانی طور پر وہی فتح یاب ہوگا، طاقت سے اسے دبا بھی لیا جائے تو اصولی فتح اسی کی ہوگی۔ مگر تلخ حقائق ان مفروضوں سے بالکل مختلف ہیں، بار بار کی کالز، فیصلوں میں تضادات اور آپسی لڑائیاں کپتان کی بارگیننگ پوزیشن بھی کمزور کر رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کا خوف اب مقتدرہ اور حکومت کو تنگ نہیں کر رہا ،نہ کوئی بیرونی دبائو آ رہا ہے اور نہ اندرونی دبائو قائم رہا ہے۔ عدلیہ سے امید، فوج کے اندر سے اختلافات، عوامی انقلاب اور معاشی تباہی جیسے سارے خواب چکناچُورہو چکےہیں۔ عوامی مقبولیت کی انتہا ہونے کے باوجود اس قدر گراوٹ اور زوال سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ تحریک انصاف میں دانشمندانہ فیصلوں کا شدید فقدان ہے۔قومی سطح پر 24نومبر اوراس طرح کی کالز کا کیا اثر ہوتا ہے؟ کئی دن تک شاہراہیں بند رہیں، لوگ کہیں آ جا نہیں سکے، معیشت کو اربوں کا نقصان ہوا۔ دنیا بھر کو عدم استحکام کا تاثر ملا اور اگر کچھ خون بہہ گیا تو حالات اور خراب ہونگے۔ اہل سیاست کو ہوش مندی سے کام لیکر یہ سیکھنا ہوگا کہ لڑائی، محاذ آرائی اور دشمنی سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے واحد حل مفاہمت ، مصالحت اور مذاکرات ہیں ،دو سال کی مسلسل لڑائیوں اور اسکے نتیجے میں صفر کامیابی سے کچھ سبق تو سیکھنا چاہیے ۔ریاست کی طاقت سے ٹکرا کر بغاوت کم انقلاب ہی آتا ہے تبدیلی نہیں آتی۔بغاوت اور انقلاب سے مقتدرہ، ریاست اور پھر ملک پاکستان کوبھی شدید نقصان پہنچے گا اس لئے واحد حل کوئی درمیانی راستہ نکالنا ہے اور وہ راستہ مصالحت کاہے۔ جتنی جلدی مذاکرات کی طرف آیا جائےگا ملک کیلئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔ دیر پا استحکام تبھی پیدا ہوگا جب سیاسی تصفیہ ہوگا۔
مقتدرہ، ریاست کا اہم ترین ستون ضرور ہے مگر سیاست میں در اندازی اور حکمرانی پر کنٹرول نے اسے ہمیشہ متنازع بنایا ہے۔ حکمرانی سیاستدانوں کا حق ہے وہ برے ہوں یا اچھے ، کرپٹ ہوں یا ایماندار، آئین کا تقاضا یہی ہے کہ وہ حکومت چلائیں۔ سپاہی اچھا ہو یا برا، دلیر ہو یا بزدل، لڑنا اسے ہی آتا ہے دکاندار جنگ نہیں لڑ سکتا۔ تضادستان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں ہر کوئی سارا اختیار اور اقتدار چاہتا ہے حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ ہر ادارے اور ہر شخص کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے اور ہر کسی کو اس کے آئینی حقوق ملنے چاہئیں۔ 24نومبر تو گزر گیا مگر اہل سیاست پر یہ بوجھ چھوڑ گیا ہے کہ وہ نہ عوام کے اعتماد پر پورے اترے اور عقلمند ترین ہونے کے باوجود نہ مذاکرات کر پا رہے ہیں اور نہ ہی کسی مصالحت پر پہنچ رہے ہیں ۔ہماری سب سے بڑی اور اجتماعی ناکامی یہی ہے۔
واپس کریں