دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکومتی پہیہ چل نہیں رہا
سہیل وڑائچ
سہیل وڑائچ
کھچڑی تو کافی دیر سے پک رہی تھی فیصلہ سازوں اور سیاسی حکمرانوں میں سیاسی اہداف کے اتفاق کے باوجود تعلقات کار اور کارکردگی میں مشکلات کو محسوس کیا جانے لگا تھا اور اب بات اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ فیصلہ سازوں کی پرزور حمایت اور تمام تر مدد کے باوجود حکومتی پہیہ چل نہیں رہا افواہ ساز تو رنگا رنگ کہانیاں سنا رہے ہیں کئی ایک تو سیاسی حکومت کے سربراہ کو گھر بھیجنے یاخود ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی افواہ اڑا رہے ہیں۔
ریاست ایسا کچھ افورڈ نہیں کرسکتی ابھی حکومت کو آئے تین چار ماہ ہوئے ہیں۔ سیاسی حریف مقبول ہے، معیشت کمزور ہے قرضے مل نہیں رہے، مہنگائی کھانے کو آ رہی ہے، بین الاقوامی حالات سازگار نہیں ہیں، ایسے میں اتنی جلدی تبدیلی ریاست کے کسی بھی کردار کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوسکتی۔ یہ درست کہ حکومتی پہیہ چل نہیں رہا مگر ریاست کے سارے ستون کوشش کر رہے ہیں کہ رکے ہوئے پہیے کو طاقت توانائی ، دھکے زور اور تیل پانی سے چلایا جائے۔
ایس آئی ایف سی کو حکومت اور مقتدرہ کا باہمی مشاورتی ادارہ بنا کر سرمایہ کاری کو لانا مقصود تھا۔ 50سے سو ارب کی غیر ملکی سرمایہ کاری کا اندازہ لگایا گیا تھا مگر فی الحال حکومتی پارٹنر کی پالیسیاں اور صلاحیت مایوس کن رہی ہے ۔سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی دلچسپی کے باوجود کوئی فزیبلٹی ایسی نہیں بنائی جا سکی جو سرمایہ کاری کیلئے پرکشش ہو یا اس بات کو یقینی بنائے کہ سرمایہ کار اپنا منافع واپس لے جا سکے۔
زراعت کے شعبے میں البتہ خاصا کام ہوا ہے مختلف کارپوریٹ اداروں کو زمینیں دی گئی ہیں جہاں مسابقتی طریق کار کے ذریعے وہ ادارے پیداوار میں مقابلہ کر رہے ہیں ان میں سے جو بھی کامیاب تجربہ کر دکھائے گا اس کے بیج اور طریق کار کو عام کاشت کار تک پہنچایا جائے گا تاکہ ملک بھر میں زراعت تیز ترین ترقی کرے۔
حکومتی پہیہ نہ چلنے کے پس منظر کا جائزہ لینا بھی دلچسپ ہو گا 8فروری کے انتخابات کے بعد جب نئے سیٹ اپ کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں سب سے پسندیدہ اور طاقتور وزیر اعظم شہباز شریف اور سب سے کم پسندیدہ اور کمزور صدر آصف زرداری تھے۔ شہباز شریف کافی عرصے سے مقتدرہ کی آنکھ کا تارہ رہے ہیں ان کی معاملہ فہمی، مینجمنٹ اور دن رات کی محنت کو مقتدرہ میں بہت سراہا جاتا تھا ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ انکے بڑے بھائی نواز شریف کی بجائے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کی حوصلہ افزائی کی گئی تاہم شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد کئی تحفظات اور اعتراضات پیدا ہونے شروع ہو گئے جن میں سب سے بڑا اعتراض فیصلے نہ کرنے اور معاملات کو طول دینے کا ہے ۔نوکر شاہی کی کوتاہیوں اور سیاسی نظام کی خامیوں کا بوجھ بھی شہباز شریف کے سر ڈلنا شروع ہو گیا اور وہ جو کبھی آنکھ کا تارا تھا اب گزارے کے قابل قرار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ 8فروری کے بعد قائم ہونے والے نظام میں صدر آصف زرداری بتدریج پسندیدہ ہوئے ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ طاقتور حلقوں کے اندر ان کے رسوخ میں اضافہ ہوا ہے اور انکی آواز زیادہ غور سے سنی جانے لگی ہے۔
حقیقت حال اوپر دیئے گئے واقعات کے گرد گھوم رہی ہو تو افواہیں جنم لینے لگتی ہیں ۔کبھی کہا جاتا ہے کہ ریاست کے دوستون، منتخب حکومت کے تیسرے ستون اور چیف ایگزیکٹو کی مایوسی اور ناامیدی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم نے ہاتھ کھڑے کردیئے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ نظام میں ان کیلئے کوئی SPACEنہیں ہے ۔وزیر اعظم کے اختیارات اور طاقت اس قدر محدود ہو چکی ہے کہ وہ کوئی بڑا فیصلہ لے ہی نہیں سکتے۔
لگتا ہے کہ بہت سی افواہیں بے پرکی اڑائی ہوئی ہیں مگر یہ تو حقیقت ہے کہ اندر ہی اندر گڑبڑچل رہی ہے مطمئن کوئی نہیں ہے نہ مقتدرہ اور نہ نونی حکومت،مقتدرہ تیز ترین ڈیلیوری کی توقع رکھتی تھی اور نونی اختیار و طاقت نہ ہونے کے شاکی ہیں۔دوسری طرف تحریک انصاف کی مقبولیت کا دباؤاور عدالتوں کے پے درپے حکومت کے خلاف فیصلے بھی نظام پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی رخصتی یا تبدیلی کسی بھی فریق کیلئے سودمند ثابت نہیں ہوگی بلکہ یہ نظام کے مکمل انہدام کا پہلا مرحلہ ہو گا گو واقعات کا دھارا اسی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے مگر یہ بالآخر نظام کے زوال پر منتج ہو گا۔
سیاست ٹھہرے ہوئے پانی کا جوہڑ نہیں رواں اور بہتے پانی کا دریا ہے ۔ہر حکومت کو نئے چیلنجز درپیش ہوتے ہیں کبھی دہشت گردی سب سے بڑا مسئلہ تھا کبھی لوڈشیڈنگ سب سے بڑا مسئلہ بن گئی اور کبھی خراب معیشت اہم ایشو ہوتا ہے اور کبھی خارجہ پالیسی اور کبھی دفاع، اس سیاسی حکومت کیلئے سب سے مسئلہ تو بحران دربحران الجھے ہوئے مسائل ہیں لیکن اب مہنگی بجلی اتنی وبال جان بن چکی ہے کہ اسے حل کئے بغیر نہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ریاست چل سکتی ہے ۔
اس وقت سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مہنگی بجلی ہر گھر کے لئے ناقابل برداشت ہو چکی ہے صنعت کار بھی اتنی مہنگی بجلی کو برداشت نہیں کر پا رہے ۔آج کی بنگلہ دیش نامنظور تحریک یا لوڈشیڈنگ ختم کرو تحریک مہنگی بجلی ختم کرنے کی ہے جو حکومت یا سیاست دان مہنگی بجلی کو ختم کرائے گا وہ ہیرو ہو گا اور جو مہنگی بجلی قائم رکھنے میں ممدومعاون بنےگا وہ زیرو ہو جائے گا ۔
ممتاز صنعت کار گوہر اعجاز نے عوامی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ابھی تک شہباز حکومت آئی پی پیز کے ساتھ کھڑی ہے اگر ان کا مؤقف بدستور یہی رہاتو انہیں سیاسی طور پر مزید نقصان پہنچے گا۔ایسا لگ رہا ہے کہ حکومتی جماعت سے کہیں زیادہ اس مسئلے کی حساسیت کا احساس مقتدرہ کو ہے اور وہ مسلسل اس معاملے کی UPDATEلے رہے ہیں۔
اس معاملے کا فیصلہ مڈل کلاس ووٹر کا ذہن بدل سکتا ہے اگر نون کے علاوہ کسی اور نے فیصلہ کیا تو وہ ہیرو ہو گا۔ ایک نئی تبدیلی یہ آئی ہے کہ 3دہائیوں سے ’’نون‘‘ کا حامی صنعت کاراور تاجر طبقہ مہنگی بجلی کے مسئلے پر حکومت کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ صنعت کاروں اور نون کے درمیان اس مسئلے پر خلیج اور بڑھ جائیگی۔
تضادستان اس وقت اپنی تاریخ کے MOTHER OF CRISIS (مادر بحران) سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران، سیاسی بحران، انتظامی بحران، اعتماد کا بحران اور اب مہنگی بجلی کا عذاب، حکومت اگر تیزی سے فیصلے نہیں کرے گی تو بے اطمینانی اور مایوسی اور بڑھے گی۔ نونی حکومت امید دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کوئی خواب تک نہیں دکھا سکی، اگر یہی حال رہا تو انکے بارے میں نظر آنے والے برے برے خواب کہیں حقیقت نہ بن جائیں
واپس کریں