سہیل وڑائچ
جنگ اور سیاست دونوں میں مقابلہ ہوتا ہے، دونوں میں کسی کی ہار اور کسی کی جیت ہوتی ہے، دونوں میں ایک دوسرے کے خلاف منصوبہ بندی ہوتی ہے، دونوں میں ایک دوسرے پر وار کئے جاتے ہیں، دونوں کی جیت یا ہار میں عقل اور طاقت جیسے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں، دونوں میں ایک جیسے غصے کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں، ان مشابہات کے باوجود جنگ اور سیاست میں صدیوں کے شعور کا فاصلہ ہے۔ جنگ اس زمانے سے انسانی جبلت، فطرت اور عادت کا حصہ ہے جب سے ہابیل اور قابیل نے مارا ماری کی تھی۔ سیاست باشعور معاشروں کے ہزاروں سال کے سفر کے بعد صحت مندانہ مقابلے کا نام ہے۔ جنگ میں تیر تفنگ، ٹینک، میزائل اور انسانوں کو ختم کرنے والے ہتھیار استعمال ہوتے ہیں جبکہ سیاست میں ایسا کرنے کا تصور تک نہیں ہے، سیاست خونخواری اور ہلاکتوں کا نام نہیں، ایک دوسرے کو مارنے اور زخم لگانے کا نام نہیں بلکہ عقل و شعور کا امتحان ہے، جنگ ازمنۂ قدیم کے وحشی جذبوں کی نشانی ہے تو سیاست مہذب معاشروں میں انسانوں کی تہذیب کی علامت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تضادستان میں سیاست کو جنگ بنا دیا گیا ہے۔ آج کی سیاست دیکھ لیں بالکل جنگ کی سی صورتحال نظر آ رہی ہے ۔ اس جنگ کے فریق میدان میں آمنے سامنے لڑنے کو تیار نہیں، ہر ایک نے مورچہ بند ہو کر لڑنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے کھلی جنگ ہو تو میدان میں آمنا سامنا ہوتا ہے، آنکھیں چار ہوتی ہیں ایک دوسرے کی خوبیاں اور خامیاں ظاہر ہو جاتی ہیں، مورچہ بند جنگ میں ہر فریق اپنے سپاہیوں کو چھپا کر اپنی حکمت عملی بنا رہا ہوتاہے اسکے سپاہی کس بری حالت میں ہیں کچھ پتہ نہیں چلتا۔ یہ خفیہ جنگ لمبی چلتی ہے، تباہ کن ہوتی ہے، اس مورچہ بند جنگ کے نفسیاتی اثرات دہائیوں تک فریقین کو تکلیف دیتے رہتے ہیں۔
تضادستان میں آج کل ہر حریف نے الگ مورچہ بنا رکھا ہے۔ سیاست اور جنگ کھلے میدان میں ہو تو اس کے اور اصول ہوتے ہیں، بند مورچوں میں ہو تو اس کے الگ فائدے اور نقصان ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں مورچہ بند جنگ نے بہت فروغ پایا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ مورچہ بند جنگ میں نقصان کافی کم ہوتا ہے لیکن اس جنگ کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلتا۔ ہماری مورچہ بند سیاست کا بھی یہی حال ہے کہ ہر فریق مورچے میں اپنی پوزیشن محفوظ اور مستحکم کر کے بیٹھا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ دوسرا کب تباہ ہوتا ہے۔ جیل کے چیمپئن فریق کا خیال ہے کہ معیشت کا دبائو، عدلیہ کا ساتھ، سیاسی عدم استحکام اور عوامی پریشر موجودہ سیٹ اپ کو ستمبر، اکتوبر میں بے دست و پا کر دے گا اور یہ اندر ہی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا۔ نونی مورچہ کی حکمت عملی یہ لگتی ہے کہ ہم مقتدرہ کے کندھے پر محفوظ رہیں گے بس اس کی فائر رینج سے دور رہیں اور اپنے سیاسی مخالف کو ہی اس فائر رینج کا نشانہ بننے دیں، اس مقابلے سے فائدہ اٹھا کر اپنی سیاسی بنیاد کو کارکردگی سے مضبوط بنائیں۔ مقتدرہ کا خیال ہے کہ ان کا مورچہ بہت مضبوط ہے اور وہ اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ سیاسی ججوں اور ان کے حامیوں کی خواہشوں کے آگے بند باندھ سکیں۔
مورچہ بند جنگوں کا نفسیاتی نقصان بہت ہوتا ہے سپاہی کئی کئی سال کیلئے نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ANIMAL FARM اور 1984ء کے شہرت یافتہ ناول نگار جارج اورول (GEORGE ORWELL) نے مورچہ بند جنگ کے بارے میں بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے جس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ ’’مورچہ بند جنگ میں پانچ چیزیں اہم ہوتی ہیں، سردیوں میں گرمی کیلئے جلانے والی لکڑی، خوراک، سگریٹ، اندھیرے کیلئے موم بتیاں اور سب سے آخر میں دشمن‘‘ اورول کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مورچہ بند لوگ اپنا اصل مقصد یعنی دشمن سے لڑنا بھول جاتےہیں اور اپنی ضروریات کو ترجیح دینے لگتے ہیں کیونکہ مورچے کی زندگی اس قدر مشکل ہوتی ہے کہ دشمن سے اتنا خوف نہیں آتا جتنا اندھیرے، سردی اور بھوک پیاس سے آتا ہے۔ ہماری سیاست کے مورچہ بند فریق بھی اپنے اصل اہداف کھو چکے ہیں، چیمپئن خان کی مقتدرہ سے لڑائی اقتدار سے علیحدگی پر شروع ہوئی مگر اب لڑائی اقتدار سے کہیں آگے جا کر مقتدرہ کے کردار اور اس کی شخصیتوں پر مرکوز ہو چکی ہے اور یوں اقتدار کی منزل ان کی ترجیح نظر نہیں آ رہی، باقی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ پہلے ان سے نمٹنا ضروری ہو گیا ہے۔ مقتدرہ کھلے میدان کی جنگ میں صرف کپتان خان کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتی تھی تاکہ ملک ان کی مرضی سے چلے، خان کی مرضی سے نہیں۔ لیکن مورچہ بند ہونے کی وجہ سے انہیں اب کبھی عدالتوں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے، کبھی معیشت کیلئے مختلف دروازوں پر دستک دینا پڑ رہی ہے۔ یہی حال نونیوں کا ہے کہ ان کا اصل ہدف، جو اقتدار تھا ،وہ اس سے کہیں آگے جا کر لڑائی کے دوسرے ایشوز میں پھنس گئے ہیں۔
تضادستان میں یہ مورچہ بند سیاست 1970، 1971ء کے بعد پہلی بار ہو رہی ہے وگرنہ یہاں سیاست ہمیشہ کھلے میدان میں ہی لڑی جاتی رہی ہے، لشکر بھی صاف نظر آتے تھے، لچک کا امکان بھی ہمیشہ ہوتا تھا، اس بار منصف خانوں اور عسکری خانوں کی کشمکش بھی مورچہ بند ہے۔ عسکری خان کا خیال ہے کہ کئی منصف خان شہرت کے گھوڑے پر سوار ہو کر سیاسی ایجنڈے کے نقیب بن چکے ہیں جبکہ منصف خان تُلے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے عسکری خانوں کی مداخلت ختم کر کے رہنا ہے، ہر طر ف آگ ہے، فائر ہے، توپیں چل رہی ہیں مگر فائرنگ خالی میدان میں ہو رہی ہے۔ مورچہ بند تو سارے محفوظ ہیں ڈر ہے کہ اس فائرنگ کی زد میں عوام خان آئے گا۔ مورچہ بند سیاست میں مفاہمت اور مصالحت کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کھلی جنگ میں تو فوراً فیصلہ ہو جاتا ہے، مورچہ بند جنگ لمبی چلتی ہے۔ آج کی مورچہ بند سیاست میں نفرت اور دشمنی کی آگ بھڑکانے والوں کی موج لگی ہوئی ہے، بیرون ملک محفوظ مورچوں میں بیٹھے سوشل میڈیا فدائین گالیوں اور سکینڈلوں کے میزائل مارتے ہیں جس سے میدان جنگ ہمیشہ گرم رہتا ہے۔ دوسری طرف ریاست کےطاقتور ترین ستون کو غصہ تو بہت ہے مگر وہ حریفوں کے بند مورچوں میں محفوظ ہونے کی وجہ سے انہیں بہت ہی کم نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کھلا میدان ہوتا تو وہ ٹینکوں اور توپوں سے جنگ جیت چکا ہوتا اب منصفوں اور سوشل میڈیا کے پیچھے بیٹھے فریق پر گولہ باری بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے اور اگر منصف خانوں اور جیل کے چیمپئن خانوں کا اتحاد و اتفاق جاری رہا تو عسکری خان کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا۔ عسکری خان اب تک آئین، قانون، عدالت اور روایت سے مکمل باغی نہیں ہوا، اس نے مارشل لا اور ایمرجنسی سے گریز کیا ہے اور اس حوالے سے جوش دلانے کے باوجود عسکری خان نے مارشل لا کے مشورے کو ہمیشہ رد کیا ہے لیکن اگر منصف خانوں کے ہاتھ عسکری خانوں کے بنائے ہوئے نظام کے گریبان تک پہنچ گئے تو صبر کی صورت میں نظام کے کپڑے اتر جائیں گے اور وہ ننگا ہو جائے گا اوراگر اس نے گریبان تک آئے ہوئے ہاتھوں کو جھٹکا دیا اور منصف خان کو دھکا دے دیا تو پھر آئین کا تیا پانچا ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس صورت میں سارے مورچہ بند فریق اپنا سا منہ لے کر رہ جائیں گے، اس صورت میں سارے سیاسی متحارب فریق لمبے عرصے کیلئے بے روزگار ہو جائیں گے اور طاقت والے ماضی کی طرح کھل کھیلیں گے۔ توقع یہی کرنی چاہیے کہ مورچہ بند سیاست تضادستان کو جس بند گلی میں لے آئی ہے اس سے نکلنے کیلئے سیاسی فریق پہل کریں، حکومت پر فرض ہے کہ پہلا قدم وہ اٹھائے۔
واپس کریں