سہیل وڑائچ
نرم لہجے اور میٹھی زبان سے کام لینے والے کو آج تلخ نوائی کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ’’مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات ‘‘ ،مجھےصاف گوئی سے کام لیتے ہوئے یہ کہنے دیجئے کہ پنجاب اور پختونخوا میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے۔ نون لیگ کی نہ اس وقت کوئی تنظیم ہے اور نہ کوئی بیانیہ، نہ شہباز شریف سیاست کےسٹیج پر چڑھنے کو تیار ہیں اور نہ مریم نواز نے آج تک لاہور یا پنجاب کے پارٹی عہدیداروں سے ایک بھی ملاقات کی ہے۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب میں گیلانی خاندان اور مخدوم خاندان کی وجہ سے چند نشستیں ملی ہیں لیکن پارٹی ووٹ بہت کم ہو چکا ہے اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پنجاب میں ایک بھی نیا ووٹ نہیں بڑھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت تحریک انصاف ہی ان دو صوبوں کی مقبول ترین جماعت ہے اگر کل الیکشن ہوں تو وہ پورے ملک میں سویپ کر جائیگی، یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف میں حکومت چلانے کی صلاحیت نہ پہلے تھی نہ اب ہے، اس کے ساتھ ایک ٹھاٹھیں مارتا ہجوم ضرور ہے مگر پنجاب میں نہ صوبائی سطح پر اسکی کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی ضلعی سطح پر۔ایک الیکشن تو پی ٹی آئی جیت سکتی ہے مگر اس کے بعد اس کا مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا ۔نواز شریف، شہباز شریف ،عمران خان اور آصف زرداری سارے ہی پاکستان میں اوسط عمر کے حوالے سے بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، اللہ سب کو عمر ِخضر عطا کرے مگر موت اور بیماریاں تو انسانی دائرے کا حصہ ہیں ۔اس لئے ملک کی سینئر قیادت کی رخصتی یا غیر حاضری کے بعد مستقبل میں ایک بہت بڑے سیاسی خلا کاسامنا ہوگا۔اب جبکہ مقتدرہ اپنی طرف سے سب بڑے خطرات کا قلع قمع کر چکی ہے اسے فوری مسئلہ یہ درپیش ہو گا کہ سیاسی خلا کو کیسے پُر کرنا ہے۔عدلیہ کی طرف سے خطرات سے نمٹا جا چکا اور کسی حد تک منصفوں سے موجودہ نظام تلپٹ کرنے کا خطرہ ٹل گیا ہے ۔آئی ایم ایف پیکیج ملنے سے ڈیفالٹ اور معاشی ابتری کا خدشہ بھی ختم ہو گیا ۔فوجی عہدوں میں توسیع سے مقتدرہ کے عہدیدار پہلے سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہو گئے ہیں ۔نظام کی مضبوطی کے باوجود یہ سوال بہرحال اب بھی موجود ہے کہ عوامی پسندیدگی اور حمایت کے بغیر یہ نظام دیرپا نہیں ہوسکتا۔اس لئے ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ نیا ہونے والا ہے، صورتحال 1988ء جیسی ہے جب پیپلز پارٹی مقبولیت کی انتہا پر تھی اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کی طاقت اور مقبولیت کو روکنے کیلئے آئی جے آئی کی بنیاد رکھ ڈالی تھی گو اس پارٹی کی تشکیل اور اس کا کردار انتہائی متنازع اور ملک کیلئے شدید نقصان دہ تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ آئی جے آئی کے پیچھے اس وقت کی آئی ایس آئی تھی۔ یہی معاملہ جنرل مشرف کی 1999ء میں فوجی بغاوت کے وقت درپیش تھا تو ق لیگ وجود میں آئی تھی۔ 2002ء میں پیپلز پارٹی میں سے پیٹریات نکالی گئی تھی، عمران خان کو نکالنے کے بعد تحریک استحکام کھڑی کی گئی مگر وہ ناکام ہو گئی۔ان سب تجربات یا سیاسی مہمات کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوتا رہا اور کوئی ناصح بھی ایسا نہ تھا جس کی آواز مقتدرہ تک پہنچے اور وہ اسے مان لے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر لوہا گرم ہے اسٹیبلشمنٹ نئی سیاسی پارٹی یا گروپ کو میدان میں اتارنا ناگزیر سمجھ رہی ہے یہ نئی کنگز پارٹی تحریک انصاف کے بیانیے اور اگلے الیکشن میں اس کے مقابلےکیلئے بنائے جانے کا امکان لگ رہا ہے۔
ری پبلکن پارٹی اور کنونشن لیگ کے قیام سے یہ ناکام تجربے شروع ہوئے اور اب ایک نیا تجربہ ہونے والا ہے، اصل میں سمجھا یہ جا رہا ہے کہ کمزور پیپلز پارٹی اور بغیر بیانیے کے نون لیگ سے مقتدرہ کو جس عوامی حمایت کی شدید خواہش ہے وہ اسے نہیں مل پارہی، مقتدرہ کو یہ بات بہت گراں گزر رہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ کارکردگی اور بیانیے کےساتھ نئی لیڈر شپ میدان میں اتاری جائے۔ ماضی کے ایسے تجربات زیادہ تر ناکام ہوئے ماسوائے نواز شر یف اور عمران خان کے۔ نواز شریف بھی اس لیے کامیاب ہوئے کہ پیپلز پارٹی کمزور ہو چکی تھی تو نواز شریف نے اسے مقتدرہ کی مدد سے پنجاب بدر کر دیا ۔عمراں خان اس لیے کامیاب ہوئے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اتحاد ہوچکا تھا چنانچہ فوج کی مہربانی سے اپوزیشن کا خلا آسانی سے پُر ہو گیا۔
مقتدر حلقوں میں یہ سوچ ہے کہ عمران خان کے خلاف کوئی موثر بیانیہ، کارکردگی والی لیڈر شپ اور مضبوط شخصیت ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔میری رائے میں تو مصنوعی تجربے ناکام ہی ہوتے ہیں خیر دیکھے اس بار کیا ہوتا ہے؟کیا کوئی نواز شریف پیدا ہوتا ہے یا پھر ناکام میاں اظہر یا ناکام رائو سکندر اقبال یا ناکام جہانگیر ترین؟سچ تو یہ ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نون لیگ نے کھا لیا تھا دبائو، سختیاں اور لالچ ہر حربے سے کام لیکر پیپلز پارٹی بتدریج دفن کر دی گئی کارکردگی اور بیانیے نے بھی اثر دکھایا، اب کی بار نون لیگ کو تحریک انصاف پنجاب میں تقریباً کھا چکی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف نے کوئی کارکردگی بھی نہیں دکھائی صرف زوردار بیانیے سے ہی نون لیگ کو کچا چبا گئی۔ اب تحریک انصاف کا امتحان شروع ہے مگر مچھوں نے منہ کھول لیا ہے اور اس بار شکار تحریک انصاف ہو گی ،پارٹی کے اندر کامیابی سے گروپ بندی ہو چکی ہے، یوٹیوبر اور انتہا پسند ایک طرف ہیں اور منتخب اور سنجیدہ قیادت دوسری طرف۔پارٹی کے اندر مقتدرہ کی جڑیں مضبوط ہو چکیں ،دیکھیں وہ اپنے پسندیدہ لوگوں کو کب ظاہر کرتی ہے؟
برسراقتدار حکومتی پارٹی نون لیگ کا المیہ یہ ہے پارٹی قیادت یعنی نواز شریف اور حکومت یعنی شہباز شریف میں محبت، احترام او رتعلق خاطر کے رشتے کے باوجود سوچ، خیالات اور عمل میں تال میل نہیں ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ مقتدرہ اور وفاقی کابینہ میں ظاہر ہو چکا ہے، وفاقی کابینہ پارٹی اور حکومت کے وفاداروں میں تقسیم ہو چکی ہے، چار وفاقی وزراء اب بھی پارٹی کے مکمل وفادار ہیں جبکہ اکثریتی وزراء کی ہمدردی حکومتی فیصلوں کے ساتھ ہے۔ شہباز شریف وفاقی کابینہ میں توسیع چاہتے ہیں لیکن پارٹی نے فی الحال انہیں گرین سگنل نہیں دیا۔
میرا یہ کالم دراصل سیاسی جماعتوں کا مرثیہ بھی ہے۔ اگر یہ اپنے آپ کو متحرک ،متحد اور مضبوط نہیں کرتیں تو پھر ہمیشہ کی طرح مقتدرہ ہی ان پر حکومت کرتی رہے گی ۔سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے کہ اگر انہیں ملک سنبھالنا ہے تو اسکی تیاری بھی کریں ۔ نون لیگ پارٹی اور حکومت کی دوریاں ختم کرکے سیاست او ربیانیے پر توجہ دے۔ پیپلز پارٹی کے پرانے نعرے دلکشی کھو چکے نیا پروگرام نئی لیڈر شپ اور نئی نوجوان تنظیمیں شاید بہتری لے آئیں۔ تحریک انصاف دبائو اور مشکل میں ہے لیکن اسکی سیاسی حکمت عملی میں دانشمندی کم اور محاذ آرائی زیادہ نظر آتی ہے۔ لمبی محاذ آرائی مضبوط جماعتوں کو بھی کھوکھلا کر دیتی ہے اس لئے حکمت سے کام لیتے ہوئے سنجیدہ فکر، تجربہ کار اور متوازن قیادت سے مشورے کئے جائیں۔ جذباتی کارکنوں، سوشل میڈیا جہادیوں اور بیرون ملک محفوظ ٹھکانوں میں بیٹھے بمباری کرنے والوں کی سننے کی بجائے پارٹی کے اندر مدبر لوگوں سے بات کی جائے تو حل نکل سکتا ہے اگر تینوں جماعتوں نے ہوش سے کام نہ لیا تو ایک نئی سیاسی قوت کا بم کسی بھی وقت ان پر گرپڑے گا۔
واپس کریں