سہیل وڑائچ
کسی کی پیشانی پر سلوٹ پڑے یا کسی کے چہرے پر مسکراہٹ آئے، مخلوط حکومت میں شامل دوستوں کا دل ٹوٹے یا یہ تلخ بات انہیں ہضم نہ ہو، مقتدرہ کے بڑے آج یہ تسلیم نہ کریں، خلیجی ممالک راضی ہوں یا ناراض، مالیاتی ادارے ہم پر مہربان ہوں یا پابندیاں لگائیں غرض یہ کہ ردعمل جو بھی ہو اگر تضادستان نے آئینی بندوبست کے تحت چلنا ہے اور خون خرابے، زور زبردستی سے بچنا ہے تو سیاسی بحران کے حل کیلئے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا، مقبولیت والے کو قبولیت والوں کو راستہ دینا پڑے گا، چاہیں نہ چاہیں عمران خان کو ایک بار اقتدار دیئے بغیر تضادستان اب آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بحران کی دلدل سے نکالنے کیلئے بادل نخواستہ ہی سہی مقتدرہ کو ابھی سے یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ تمام تر انتظامی ہتھکنڈوں کے باوجود عمران سیاست میں سب کو شکست دے کر وکٹری سٹینڈ پر کھڑا ہے، اس میٹھی یا تلخ حقیقت کو جتنی جلدی مان لیا جائے ملک کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ تاریخ اور تجربات سے یہ بات واضح ہے کہ سیاست کا مقابلہ سیاست سے ہوتا ہے سیاست کا مقابلہ انتظامی ہتھکنڈوں سے کیا جائےتو سیاست جیت جاتی ہے۔ جیلیں، مقدمے، تشدد، ظلم اور جبر کے اقدامات ہمارے ملک میں سیاستدانوں کیلئے ہمدردی کو بڑھا دیتے ہیں چنانچہ یہی ہوا کہ عمران کا مقابلہ کرنے کیلئے نہ کوئی سیاسی بیانیہ تھا نہ کوئی سیاسی عیاری۔ بے محابا اور ظالمانہ طاقت سے سیاست کو دبایا نہیں جا سکتا۔ سیاست تو دنیا کا مشکل ترین کھیل ہے جہاں انسانوں کے ذہنوں کو مسخر، متاثر اور مائل کرکے اپنے ساتھ چلانا ہوتا ہے، سیاست دنیا کے ذہین ترین لوگوں کا پیشہ رہا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں نمایاں ترین لوگ ہی لیڈررہے ہیں اور یہ سارے کے سارے سیاستدان تھے۔ دنیا کے سب سے ذہین لوگوں کو ہی یہ ملکہ حاصل رہا کہ وہ دوسرے انسانوں کو قائل کرکے یا MANAGEکرکے ان پر حکمرانی کریں۔ بدقسمتی سے کپتان کو ہٹانے کے بعد سیاست کو آسان ترین ہدف اور لقمہ تر سمجھ لیا گیا۔ ’’سیانے‘‘ تحریک استحکام پاکستان جیسا غیر سنجیدہ قدم اٹھا کر بجائے اس کے کہ تحریک انصاف کو نقصان پہنچاتے خود جہانگیر ترین کو لے بیٹھے۔ الغرض حماقتوں کی ایک لمبی داستان ہے جو تحریک انصاف کے مخالفوں سے مسلسل سرزد ہوئیں اور اب بھی یہ جاری و ساری ہیں۔ 8 فروری کوثابت ہوگیا کہ عوام تحریک انصاف کے ساتھ ہیں، جولائی کے سپریم کورٹ کے فیصلے سے یہ بھی طے ہوگیا کہ عدلیہ کی اکثریت ناانصافی پر طاقتوروں کا ساتھ نہیں دے گی۔ یہ وہ دو بڑے ٹھوس حقائق ہیں جن کے بعد شکست تسلیم کرتے ہوئے چھپکلی یا چھچھوندر بھی کھانا پڑے تو احساس ِکراہت وناگوار ی کے باوجود اسے کھا لیں۔چند ہفتےپہلے ’’ایک اور سقوط ڈھاکہ‘‘ کے ذریعے سب فریقوں کو ماضی کی مثال دے کر متنبہ کرنے کی کوشش کی تھی، اب بھی یہی عاجزانہ گزارش ہے کہ شیخ مجیب غدار تھا یا محب وطن، جب آئینی بندوبست کےتحت اسے اکثریت مل گئی تھی تو دل پہ پتھر رکھ کر ہی سہی اسے اقتدار دے دینا چاہیے تھا۔ آج عمران کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ہجوم کے غصے کو ٹھنڈا کرنا ہے، عدالتی نظام کے فیصلے تسلیم کرتے ہوئے اس کا بھرم برقرار رکھنا ہے تو پھر ایک بار کپتان کو حکومت دیناپڑے گی۔ قوموں کی زندگی میں چار پانچ سال کچھ نہیں ہوتے، شیخ مجیب متحدہ پاکستان کا وزیراعظم بن جاتاتو بہت امکان تھا کہ وہ اچھی گورننس نہ دکھا سکتا اور بنگال میں بھی غیر مقبول ہو جاتا مگر ہم مغربی پاکستانیوں نے یہ رسک نہ لیا، اس وقت کڑوا گھونٹ پی لیتے، دل جلانے والی دوا نگل جاتے تو شاید زہر سے زہر کا علاج ہو جاتا۔ آج پھر ہم اسی دوراہے پر آ کھڑے ہوئے ہیں، فیصلہ یہ کرناہے کہ کیا آئین، جمہوریت، عدالت اور مقبولیت کے جو اصول ہم نے خود طے کئے ہوئے ہیں ان کو پامال کرنا ہے یا پھر ان اصولوں کو برقرار رکھنے کیلئے ناگوارِ خاطر فیصلے کرنے ہیں،چاہے مجبوری میں ہی سہی مگر عوامی اور عدالتی فیصلوں کو ماننا ہی بہتر راستہ ہوگا۔
میں بہت خوش فہم ہوں ہر ایک سے اچھی امید رکھتا ہوں اس لئے خواہش اور دعا ہے کہ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئیں تو کامیاب ہوں۔ ذاتی خوش فہمی سے ہٹ کر تلخ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں عمران خان گورننس، ٹیم سلیکشن اور وژن دینے میں مکمل ناکام رہے ، انہوں نےمیڈیا ، عدلیہ اور سول آزادیوں کا بیڑا غرق کیا، جمہوری SPACEضائع کردی اور پھر خود اپنی ہی حکومت کی قبر بھی کھوددی، اس تجزیے کےباوجود یہ کہہ رہا ہوں کہ عمران خان کو آنا چاہیے اور اپنے ناقدین کو غلط ثابت کرنا چاہیے اگر عمران نے غلطیاں کی ہیں تو کیا جواب میں مقتدرہ ، حکومت، میڈیا اور اسے ناپسندکرنے والے بھی وہی غلطیاں دُہرائیں؟ میری رائے میں دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر خود اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔پاپولر عمران کو حکمران عمران ہی ہرا سکتا ہے بالکل اسی طرح جیسے مظلوم پیپلز پارٹی کو حکمران پیپلز پارٹی نے پنجاب میں ختم کردیا تھا یا پھر ووٹ کو عزت دو والی نون کو شہباز شریف کی 16ماہ کی حکومت نے خود ہی دھونی دے دی تھی۔تاریخ کا پہیہ گھومتا رہتا ہے یہی حال سیاست کا ہے، کبھی کوئی زیروہیرو بن جاتا ہے اور کبھی کوئی گمنام مقبول عام۔ زمانے نے اس کے الٹ مناظر بھی دیکھے ہیں یہاں بہت سے ہیرو، زیرو ہوئے ہیں اور مقبول عام، گمنامی اور بدنامی کے گہرے اور اندھیرے گڑھوں میں گرے ہیں۔ عمران خان عرصہ دراز سے دیوتا اور مرشد کے مقام پر فائز ہیں ان کے خلاف زبان ہلانے کو ’’گناہ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جھوٹی خدائی کے پیروکار ہر ناقد پر پتھروں اور گالیوں کی وہ بارش کرتے ہیںکہ الامان والحفیظ۔ اگر تو تاریخ اور سیاست میں جو لکھاگیا ہے وہ درست ہے تو پھر ایک دن وہ بھی آئے گا جب دیوتا کے فدائین اور مرشد کے مریدین اپنی سوچ بدلیں گے حکمران خان اگر ناکام ہوا تو یہی پیروکار اپنے ہی دیوتا کو مسمار کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، یہ خود اپنے ہی مرشد سے باغی ہو جائیںگے، شخصی اور اندھی عقیدت دو چار غلطیوں کی مار ہوتی ہے، ادھر دیوتا اور مرشد نے غلطی کی ادھر یہی پیروکار آمادہ پیکار ہو جاتے ہیں۔ توقع تو یہی کرنی چاہیے کہ عمران اپنے حامیوں اور ناقدوںکی توقعات پر پورا اتریں گے ، بزداروں اور محمود خانوں سے پرہیز کریں گے، جنرل فیضوں کی بجائے’’جنرل عوام‘‘ کے ایجنڈے پر چلیںگے، اگر تو وہ بدلے ہوئے عمران ہوئے تو شاید تاریخ میں امر ہوجائیں گے، مقبولیت کے بعد اگر حکومتی کامیابی بھی سمیٹ لی تو سیزر بن جائیں گے اور اگر ناکام رہے تو داراشکوہ کی طرح شکست خوردہ لشکر کے سربراہ کی حیثیت سے تاریخ میں ہلکا سا اور منفی سا ذکر باقی رہ جائےگا۔آخر میں عمران خان کے ناقدین سے گزارش ہے کہ دیوار پر لکھے فیصلوں کے آگے رکاوٹ بننا تاریخ کے دھارے کو روکنے کے مترادف ہوتا ہے، نہ تاریخ رکتی ہے اور نہ دریائوں پربند باندھے جا سکتے ہیں، دریائوں کو راستہ ملتا رہے تو وہ وادیوں میں جا کر خاموش اور سمندر میں گر کر فنا ہو جاتے ہیں۔دریا کو چلنے دیں وہ اپنی تقدیر کافیصلہ خود کرلے گا ۔ناقدین کے حوصلے کیلئے حکیم ناصرکا یہ شعر ان کی نذر ہے۔
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے
واپس کریں