دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عصبیت ،کسے کہرت ہیں؟ خالد محمود عباسی
No image عصبیت اس قوت کو کہتے ہیں جو افراد کو باہم جوڑنے کا ذریعہ بنتی ہے۔اسے "اپنے خون کی محبت" سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔یہی جذبہ خاندانوں کو برادری،قبیلہ اور قوم میں باندھتا ہے۔جتنی مضبوط عصبیت ہو گی اتنے ہی طاقتور اتحاد کو پیدا کرے گی۔جتنا مضبوط اتحاد ہو گا اتنی ہی طاقتور قوت فراہم کرے گا۔یہی قوت پھر حصول اقتدار کا ذریعہ بنتی ہے۔عصبیت کا یہ جذبہ اپنے آپ میں کوئی برائی نہیں ہے بلکہ باہمی اتفاق کا ایک نہایت طاقتور اور مثبت ذریعہ ہے۔لیکن یہی جذبہ جب اندھا بہرا ہو جائے اور اپنی قوم،برادری یا قبیلے کے مفاد پر سچائی،دیانت اور اصول کو قربان کرنے پر مجبور کر دے تو یہ ناپسندیدہ اور مکروہ صورت اختیار کر لیتا ہے۔اب یہ عصبیت جاہلیہ قرار پاتا ہے۔یہاں اس پر وہ قول صادق آتا ہے کہ "جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں۔" آج کی نیشن سٹیٹس اسی عصبیت جاہلیہ میں مبتلاء ہیں۔یہ لوگ ایک دوسرے کےلئے جن اصولوں کو قبول کرتے ہیں دوسری قوموں کےلئے ان اصولوں کو پامال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ہیں۔

انسان کو تمام مخلوقات میں امتیازی مقام اس کے شعور اور ادراک کی وجہ سے حاصل ہے۔یہ شعور ارتقاء کی منازل طے کرتا کرتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس مقام تک پہنچا کہ انسان کو خون کی عصبیت کی جگہ نظریے کی عصبیت کی تعلیم دی گئی۔یعنی پہلے جو طاقت اور قوت قومی عصبیت فراہم کرتی تھی اب وہ قوت نظریاتی عصبیت سے حاصل کی جائے گی۔مختصرا یوں سمجھ لیجیے کہ موجودہ دور میں کسی قوم کےلئے وطن کی محبت کی جو حثیت ہے وہ حثیت اب نظریہ توحید کو حاصل ہو گی۔یہاں پہنچ کر وطن پرستی اور توحید پرستی مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ایک اگر حق ہے تو دوسرا باطل ہے۔ایک اگر صدیق اکبر ہے تو دوسرا ابو جہل ہے۔جو لوگ قومی مفاد کے حصول کےلئے اسلام کے آفاقی اصول پس پشت ڈال دیتے ہیں وہ درحقیقت وطنی عصبیت جاہلیت میں مبتلاء ہوتے ہیں۔
آج اگر دنیا نے "عالمی گاؤں" کی صورت اختیار کر لی ہے تو غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ اس گاؤں میں پر امن طور پر باہم ملکر رہنے کی بنیاد کونسی عصبیت بن سکتی ہے؟ نظریہ توحید کی آفاقی عصبیت یا قوم پرستی پر مبنی وطنی عصبیت ؟ وطنی عصبیت تو عالمی جنگیں پیدا کرے گی جبکہ عالمی جوڑ کا ذریعہ صرف نظریے کی عصبیت ہی بن سکتی ہے۔

یہاں ایک ضمنی مسئلہ بھی ہے جو پیش نظر رہنا چاہیے۔ چونکہ انسان بنیادی طور پر سماجی رجحان کا حامل ہے لہذا نظریے کی بنیاد پر جڑنے والوں میں بھی آہستہ آہستہ نظریے کی عصبیت جاہلیہ پیدا ہو جاتی ہے۔یعنی جب سچائی دیانت اور امانت پر جماعتی مفاد غالب آ جائے تو سمجھ لیں کہ عصبیت جاہلیہ کے عمل نے اس اصول پرست جماعت کو اب ایک فرقے کی صورت دے دی ہے۔یہ اصول پرستی ترک کر چکا ہے اور ایک مفاد پرست ٹولے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

کل ایک ٹویٹ کے ذریعے یہ حقائق سامنے لانے کی کوشش کی تو کچھ دوست تفصیل کے طالب ہوئے۔اس لیے یہ وضاحت کر دی۔ذیل میں اس ٹویٹ کی عبارت رقم ہے
" بہت کم لوگ عصبیت اور عصبیت جاہلیہ کے فرق سے واقف ہیں اور ان سے بھی کم لوگ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ جن کے ساتھ نسلی تعلق نہ ہو بلکہ محض اللہ کی رضا ہی کےلئے جڑے ہوں انکا ناحق ساتھ دینا بھی عصبیت جاہلیہ ہی میں شمار ہو گا"
واپس کریں