دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پی پی پی ہوشیار باش:ڈاکٹر محمد یوسف اعوان
No image * فلاں جیالی کی بیٹی، فلاں جیالے کا بیٹا، بہت ہو چکا، بار بار جیلیں کوڑے کیش کروائے جا چکے ہیں، گراؤنڈ پر صفر، اپنا پولنگ اسٹیشن جیتنے سے عاری۔ عہدے، مخصوص نشستیں سب انہی کا حق ٹھہرتی رہیں۔ کسی کی ماں جیالی تھی، کسی کی ساس جیالی تھی، کسی کا باپ جیالا تھا، کسی کا سسر جیالا تھا، وہ سب جیالے سر آنکھوں پر، انتہائی قابل احترام۔ اب بس کریں، سنہہ 1988 سے پہلے کا زمانہ کب کا گزر چکا۔ آج کی بات کریں، عہدوں اور ٹکٹوں کا پیچھا چھوڑیں، گراؤنڈ کی بات کریں، اپنے گلی محلے میں عوام سے رابطہ کریں، لوگوں کی باتیں سنیں، گلے شکوے سنیں ، انہیں مطمئن کریں۔اپنا پولنگ اسٹیشن جیتنے کے قابل ہوں۔
* چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو دھوکہ نہ دیں، ان کے گرد گھیرا تنگ نہ کریں، کارکنوں اور عوام الناس سے ملنے دیں۔
* سنہہ 2008 کے بعد جن کی کوئی کارکردگی نہیں ہے، وہ عہدوں اور مخصوص ٹکٹوں سے دور رہیں ۔ بغیر عہدوں کے گراؤنڈ پر کام کریں۔ اپنے قریبی لوگوں اور عوام میں قابل احترام بنیں۔
* جو سابقہ جیالے اور جیالیاں سالہا سال اوربالخصوص 2013 کے بعد سے غیر متحرک ہیں، انہیں کوئی عہدہ نہ دیا جائے ، وہ عوام سے ناطہ توڑ چکے ہیں، وہ عوام سے ناطہ جوڑیں-
* سوشل میڈیا پر کچھ لوگ متحرک ہیں اور کچھ متحرک ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور پی پی پی کی سیاست کے حوالے سے فیس بک ایک موثر ہتھیار ہے مگر گراؤنڈ ورک نہ ہونے کی صورت میں یہ بھی غیر موثر ہی ہے۔البتہ جیالوں کے آپس میں رابطے اور سیاسی تربیت کا اچھا ذریعہ ہے۔ وٹس ایپ گروپس اور ٹویٹر کا عوام الناس سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ ٹویٹر تو پارٹی لیڈروں کی حد تک ہی موثر ہے، باقی یہ ایلیٹ کلاس کا مشغلہ ہے۔پی پی پی تو مزدوروں، کسانوں، کچی آبادیوں، ٹوٹی چھتوں والوں کی پارٹی ہے، وہاں تو گراؤنڈ ورک چاہئے۔
* جو لوگ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں ٹکٹ ہولڈرز تھے اور قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں محض دو دو، تین تین ، یا چار چار ہزار ووٹ لے کر بری طرح سے ضمانتیں ضبط کروا کر پارٹی کی بدنامی کا باعث بن چکے ہیں، انہیں پارٹی میٹنگز میں ٹکٹ ہولڈر کا اعزاز قطعا” نہ بخشا جائے، انہیں اگلی نشستوں کی بجائے پچھلی نشستوں پر بٹھایا جائے اورتنبیہہ کی جائے کہ عوام الناس سے اپنی ناقص کارکردگی کی معافی مانگیں۔
* سوشل میڈیا کو منظم کیا جائے، سوشل میڈیا پر کام کرنے والے حالات حاضرہ سے باخبر، دور حاضر کے مقامی، قومی، علاقائی اور بین الاقوامی علوم سے مسلح،سیاسی تاریخ، جغرافیہ، قومی و صوبائی حلقوں کی تمام تر تفصیلات بشمول برادریاں ، مذہبی وابستگیاں وغیرہ کا مکمل علم رکھنا بھی لازم ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا ورکرز کی مسلسل تربیت کے لئے باقاعدہ اسٹڈی سرکلز لازمی ہونے چاہئے۔
* الیکٹرانک میڈیا پر پارٹی کے ترجمانوں کی بھی تربیت ہوتے رہنا چاہئے اور یہ پارٹی کی طرف سے نامزد ہوں۔
* پارٹی عہدوں اور ٹکٹوں کے لئے متحرک ہونا لازمی شرط ہونی چاہئے، نوجوان متحرک لوگوں کو ترجیح ملنا چاہئے۔
* ٹکٹوں کی تقسیم میں متحرک اور سیٹ جیتنے کی اہلیت رکھنے والوں کو ترجیح دیں۔ نئے الیکٹیبلز ضرور لیں مگر انہیں پارٹی ڈسپلن میں رکھیں۔ پارٹی کے غداروں کو ہر گز نہ لیں کیونکہ وہ تو اب الیکٹیبلز بھی نہیں رہے، ان کو واپس لئے جانے کی صورت میں مستقل مزاج اور مخلص جیالوں کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
* پارٹی کو گراس روٹ لیول پر منظم کرنا ہو گا۔ موقع مناسب ہے، چیئرمین صاحب مخلص ہیں، متحرک ہیں، حالات سازگار ہیں، اگر یہ موقع ضائع ہو گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
* زرداری بووائز نے پارٹی کے اندر موجود مائنس زرداری سوچ رکھنے والوں کا موثر و کامیاب مقابلہ کیا ہے، دیگر اقسام کے دو نمبریوں کا مقابلہ کرنے میں بھی پر عزم ہیں۔

ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
واپس کریں