دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شیرپاؤ کا خاندان قربانی، خدمت، اور قیادت کی ایک زندہ مثال ہے
No image (تحریر : خالد خان)پختون دھرتی قربانی، حب الوطنی، اور خدمت کی انمٹ اور لازوال داستان ہے۔ اس کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہے، جس میں عظیم رہنماؤں نے اپنی جرات، بصیرت، اور خدمت کے ذریعے اپنا لوہا منوایا۔ انہی تاریخ ساز شخصیات میں ایک درخشندہ ستارہ حیات محمد خان شیرپاؤ ہیں، جو نہ صرف پختونوں کی قیادت کا روشن باب ہیں بلکہ قربانی اور خدمت کا عملی مظہر بھی۔ ان کی زندگی خدمت اور شہادت کا حسین امتزاج ہے، جس نے خطے کی تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑے۔
حیات محمد خان شیرپاؤ 1937 میں ایک باوقار خاندان، خان بہادر غلام حیدر خان کے گھر شیرپاؤ، چارسدہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی زندگی سے ہی قیادت اور عوامی خدمت کے آثار نمایاں تھے۔ تعلیم سے لے کر سیاست میں قدم رکھنے تک، ان کی شخصیت ہمیشہ بصیرت، اصول پرستی، اور قربانی کی علامت رہی۔
قیادت اور بصیرت کا سفر
شیرپاؤ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والد کے زیرِ نگرانی مکمل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج پشاور کا رخ کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ان کی قیادت کی صلاحیتوں نے انہیں طلبا کے حقوق کے لیے ایک جاندار آواز بنا دیا۔
سیاست کے میدان میں ان کا پہلا قدم پاکستان مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اٹھا، جہاں انہوں نے مادرِ ملت فاطمہ جناح کا ساتھ دیا اور ایوب خان کے آمرانہ دور کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ لیکن ان کی سیاسی زندگی کا اصل رخ اس وقت متعین ہوا جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1967 میں انہیں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ شیرپاؤ نے بھٹو کے نظریات کو اپنایا اور خیبرپختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) میں پارٹی کے پہلے چئیرمین کے طور پر خدمات انجام دیں۔
انتظامی قابلیت اور عوامی خدمت
حیات محمد خان شیرپاؤ کی قائدانہ صلاحیتیں ان کے گورنر صوبہ سرحد اور وفاقی وزیر برائے توانائی و قدرتی وسائل کے عہدوں پر مزید نکھر کر سامنے آئیں۔ انہوں نے بے شمار ترقیاتی منصوبے شروع کیے اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کر کے غربت کے خاتمے کی کوشش کی۔
1974 کا سال صوبہ سرحد کے لیے دہشت گردی اور بدامنی کا سال ثابت ہوا۔ اس نازک وقت میں شیرپاؤ نے صوبائی سینئر وزیر کا عہدہ سنبھالا اور اپنی جرات مندانہ قیادت کے ذریعے عوام کو امید دلائی۔ لیکن 8 فروری 1975 کو پشاور یونیورسٹی میں ایک بم دھماکے میں ان کی شہادت نے خطے کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
آفتاب احمد خان شیرپاؤ: مشن کا تسلسل
حیات محمد خان شیرپاؤ کی شہادت کے بعد ان کے بھائی آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے مشن کو جاری رکھا۔ آفتاب شیرپاؤ نے اپنی قیادت سے عوام کے دل جیتے اور مختلف اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں، جن میں خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ اور وفاقی وزیرِ داخلہ شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کے نظریات کو آگے بڑھاتے ہوئے امن، ترقی، اور عوامی خدمت کے لیے مثالی کردار ادا کیا۔
سکندر حیات خان شیرپاؤ: ایک نئی نسل کے رہنما
شیرپاؤ خاندان کی میراث اب سکندر حیات خان شیرپاؤ کے ذریعے آگے بڑھ رہی ہے، جو آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے بیٹے ہیں۔ سکندر نے اپنے والد اور چچا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خیبرپختونخوا کی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
بطور رکن صوبائی اسمبلی اور مختلف وزارتوں کے سربراہ، سکندر حیات شیرپاؤ نے تعلیم، روزگار، اور گورننس میں اصلاحات کے لیے اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور خطے کی ترقی کے لیے اپنی خدمات وقف کر رکھی ہیں۔
شیرپاؤ خاندان: خدمت اور قربانی کی لازوال داستان
حیات محمد خان شیرپاؤ، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، اور سکندر حیات خان شیرپاؤ کا خاندان قربانی، خدمت، اور قیادت کی ایک زندہ مثال ہے۔ ان کی میراث پختون قوم کے لیے مشعلِ راہ ہے، جو قربانی، وقار، اور ترقی کے اصولوں پر مبنی ہے۔
شیرپاؤ خاندان کی کہانی ثابت کرتی ہے کہ اصل قیادت اقتدار سے نہیں بلکہ عوام کی خدمت، رہنمائی، اور ترقی کے عزم سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ خاندان ہمیشہ پختون دھرتی کے دل میں زندہ رہے گا، ایک ایسے عہد کے طور پر جو قیادت اور قربانی کی اصل معنویت کو اجاگر کرتا ہے۔
واپس کریں