دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وفاقی حکومت کی مثبت پالیسیوں کا اعتراف
No image حکومت کے قیام کو تقریباً ایک سال مکمل ہونے پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس عرصے کے دوران ایسی پالیسیاں اختیار کی گئیں جن کا مقصد ملکی معیشت کو مثبت سمت میں لے کر جانا تھا۔ حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے ذریعے طویل مدتی اہداف حاصل کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر پالیسی کا تسلسل جاری رہا تو آنے والے وقت میں ان اہداف کا حصول یہ ثابت کرے گا کہ حکومت کے یہ اقدامات کتنی اہمیت کے حامل تھے۔ علاوہ ازیں، قلیل مدتی اہداف بھی مقرر کیے گئے جن میں کچھ کے نتائج ہمارے سامنے ہیں اور انھی کی بنیاد پر ملک کے اندر اور باہر کئی ادارے حکومت کے اقدامات کی تعریف کر رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی طرف سے پالیسی ریٹ کو مسلسل کم کر کے 12 فیصد پر لے آنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات مثبت ہیں اور معیشت کو ان سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی کئی اداروں کی رپورٹیں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں درست ہیں۔ اس سلسلے میں ورلڈ اکنامک فورم کے ’نیو اکانومی اینڈ سوسائٹیز پلیٹ فارم‘ کے کنٹری پارٹنر انسٹی ٹیوٹ مشعل پاکستان کی طرف سے جاری کی جانے والی پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025ء بھی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ رپورٹ مارچ 2024ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد وزیراعظم محمد شہباز شریف حکومت کی جانب سے نافذ کی گئی 120 سے زائد کلیدی اصلاحات کو دستاویزی طور پر پیش کرتی ہے۔ رپورٹ جنوری 2024ء سے جنوری 2025ء کے آخر تک کے دورانیے کا جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے اور پالیسی و گورننس میں ہونے والی تبدیلیوں کو ڈیٹا پر مبنی تفصیلات کے ساتھ پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ کے ذریعے پہلی مرتبہ پاکستان میں حکومت کے اصلاحاتی ایجنڈے کو منظم انداز میں دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 11 مہینوں میں 120 سے زائد اصلاحات مختلف شعبوں میں نافذ کی گئیں جن میں گورننس، اقتصادی پالیسی، قانونی فریم ورک اور ادارہ جاتی کارکردگی شامل ہیں۔ یہ اقدام پالیسی تبدیلیوں کا درست اور شفاف ریکارڈ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا تاکہ پالیسی ساز ادارے، کاروباری برادری اور بین الاقوامی ادارے پاکستان کے بدلتے ہوئے گورننس ماڈل کے ساتھ مؤثر انداز میں جڑ سکیں اور ان کا تجزیہ کرسکیں۔ یہ رپورٹ بین الاقوامی رپورٹس کے برعکس، جن میں صرف جنوری سے مئی تک کا ڈیٹا شامل ہوتا ہے، پورے سال کا تجزیہ پیش کرتی ہے تاکہ گورننس، احتساب اور شمولیت پر ایک مکمل اور حقیقت پر مبنی جائزہ فراہم کیا جاسکے۔
رپورٹ کے اجرا کے موقع پر مشعل پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر جہانگیر نے کہا کہ پاکستان ریفارمز رپورٹ 2025ء ایک غیرمعمولی اقدام ہے جو گورننس ریفارمز میں معلوماتی خلا کو پر کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جہاں بین الاقوامی تجزیے عام طور پر محدود ڈیٹا پر مبنی ہوتے ہیں، یہ رپورٹ پاکستان میں شہباز شریف حکومت کے تحت ہونے والی وسیع اصلاحات کا جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پالیسی سازوں، کاروباری اداروں اور عالمی اداروں کو ان اصلاحات کی دستاویزی شکل میں مکمل معلومات فراہم کر رہے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے بدلتے ہوئے حکومتی ڈھانچے کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اس رپورٹ میں گورننس، احتساب اور شفافیت کے حوالے سے ایک مکمل جائزہ فراہم کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ پالیسی میں ہونے والی تبدیلیوں کے حقیقی اثرات کو سامنے لاتی ہے تاکہ پاکستان کی ترقی کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔
رپورٹ میں حکومت کی جانب سے معاشی عدم استحکام، بلند افراطِ زر، کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر، قرضوں کے دباؤ، سیاسی پولرائزیشن اور بیوروکریسی کی غیر مؤثر کارکردگی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیلات شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گورننس اور عوامی شعبے میں اصلاحات کی گئیں، ڈیڑھ لاکھ وفاقی ملازمتوں میں کمی کرکے اخراجات کم کیے گئے اور حکومتی بورڈز میں 33 فیصد خواتین کی نمائندگی کو لازمی قرار دیا گیا۔ حکومت کی طرف سے معاشی و مالیاتی اصلاحات کی گئیں ان کے نتیجے میں افراطِ زر مئی 2023ء میں 38 فیصد سے کم ہو کر دسمبر 2024ء میں 4.1 فیصد تک آ گئی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر 4.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 11.73 بلین ڈالر ہو گئے۔ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد ہو گئی، اور 2025 میں 3.5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ اسی طرح، تجارتی خسارہ 27.47 بلین ڈالر سے کم ہو کر 17.54 بلین ڈالر رہ گیا۔ ان اقدامات کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ اس دوران اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارتی سرگرمیوں کے خلاف سخت کارروائیاں بھی کی گئیں اور اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے سلسلے میں اہم اصلاحات بھی ہوئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت کی بہتری اور ملکی ترقی کی جو رپورٹیں سامنے آ رہی ہیں ان سب کا سہرا بالعموم اتحادی حکومت اور بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سر ہے جس نے نامساعد حالات میں گھمبیر چیلنجز کا مقابلہ کیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان سب پالیسیوں کے ثمرات تاحال عام آدمی تک اس طرح نہیں پہنچنا شروع ہوئے جیسے انھیں پہنچنا چاہئیں۔ اس حوالے سے حکومت کو سنجیدگی سے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ ملک اور معیشت پر اداروں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ ساتھ عام آدمی کا اعتماد بھی بحال ہوسکے۔ اس سلسلے میں یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ اگر ملک سے انتشاری سیاست کا خاتمہ ہو جائے تو ملک مزید بہتری کی طرف جاسکتا ہے۔ اس ضمن میں حکومت اور حزبِ اختلاف کو مل کر نظام کے استحکام کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر کوئی تحفظات ہیں تو پارلیمان اور عدالت جیسے مجاز فورم موجود ہیں جن سے رجوع کر کے تمام تحفظات دور کیے جاسکتے ہیں۔
واپس کریں