دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈونلڈ ٹرمپ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے بیان پر قائم
No image اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے 2 ریاستی حل مسترد کرتے ہوئے سعودی عرب کے اندر فلسطینی ریاست بنانے کی مضحکہ خیز تجویز دے دی۔ دورہ امریکہ کے دوران انٹرویو میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ سعودیوں کے پاس بہت زیادہ زمین ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بیان نہ صرف ایک غیر سنجیدہ بلکہ انتہائی توہین آمیز بھی ہے۔ یہ بیان اسرائیل کے طویل المدتی توسیع پسندانہ عزائم اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بیدخل کرنے کی سازشوں کا تسلسل ہے۔نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ ’’فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے‘‘ دراصل اسرائیل کی نوآبادیاتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو 1948 میں لاکھوں فلسطینیوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر چکا ہے اور آج بھی مسلسل فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضے، غیرقانونی یہودی بستیاں تعمیر کرنے اور انہیں بیدخل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی غزہ کے فلسطینیوں کو مصراور اردن میں منتقل کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس طرح کے خیالات درحقیقت فلسطینیوں کے قومی تشخص اور ان کے قانونی و تاریخی حقوق کو ختم کرنے کی سازش ہے۔اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطین کے علاقے کو جغرافیائی اور سیاسی طور پر محدود کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ مغربی کنارے کو دیواروں اور چیک پوسٹوں کے ذریعے تقسیم کر دیا گیا ہے، غیرقانونی یہودی بستیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں، اور غزہ پر طویل عرصے سے جاری محاصرہ فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر چکا ہے۔ ان حالات میں اسرائیل کا یہ مطالبہ کہ فلسطینی اپنی سرزمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں، نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک نسل کشی کی ذہنیت کی نشانی بھی ہے۔جرمنی پولینڈ جاپان اور دنیا کے کونے کونے سے یہودی لا کر فلسطینی سرزمین پر بسادیئے۔اب ان کے لیے وطن کے اصل مالکوں کا وجود ناقابل برداشت ہو رہاہے۔بدقسمتی سے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور مسلم ممالک کی اکثریت اسرائیل کے ان توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف محض مذمتی بیانات دینے اور قرار دادوں کی منظوری سے آگے نہیں بڑھ رہی‘ جس سے الحادی قوتوں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے ہیں۔ فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، بالخصوص ان مسلم ممالک کو جن کے پاس سفارتی، عسکری اور اقتصادی اثر و رسوخ موجود ہے‘ان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ فلسطینیوں کی آزادی کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔خصوصی طور پر وہ ممالک جن کے ہاں امریکہ نے اسرائیل کی حفاظت کے لیے دفاعی نظام نصب کر رکھا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے بیان پر قائم ہیں، مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کو زمین کےکچھ حصے دینے پر غور کیا جاسکتا ہے تا کہ وہاں دوبارہ تعمیر کے عمل میں مدد لی جاسکے۔
ٹرمپ نے کہا کہ فلسطینیوں کا خیال رکھیں گے ان کا قتل نہیں ہونے دیں گے۔مشرق وسطیٰ کے ممالک فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسا نے پر تیار ہو جائیں گے جب وہ ان ممالک سے بات کریں گے۔
امریکی صدر نے کہا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور مصر کے صدر سے بات چیت کروں گا،غزہ کو مستقبل کی ترقی کے لیے ایک اچھا مقام بنائیں گے۔روسی صدر پیوٹن سے مناسب وقت پر ملاقات کروں گا۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ امریکا درآمد ہونے والےاسٹیل اور المونیم پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان آج کروں گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں صدر ٹرمپ نے غزہ پر امریکا کی جانب سے قبضہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، ہم اس کے مالک ہوں گے۔ جس کا مقصد اس علاقے میں استحکام لانا اور ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا تھاکہ میں غزہ میں طویل المدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھتا ہوں، ہم غزہ کو ترقی دیں گے۔علاقے کے لوگوں کے لیے ملازمتیں دیں گے ، شہریوں کو بسائیں گے۔
ٹرمپ کے اعلان پر اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے غزہ سے فلسطینیوں کی بےدخلی کی مخالفت کی تھی اور دو ریاستی حل پر زور دیا تھا۔
واپس کریں