عام آدمی اور اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں بھاری اضافے

پاکستان میں مہنگائی بہت زیادہ ہے اور طرح طرح کے ٹیکسوں کے سبب عام شہریوں پر مالی بوجھ میں بھی بہت اضافہ ہو چکا ہے۔ شدید مہنگائی نے ہر پاکستانی صارف کو متاثر کیا ہے۔ لیکن اگر صارفین کی مالی حیثیت کو دیکھا جائے، تو ان کی آمدنی کے تناسب سے ان کے لیے مہنگائی کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کی شدت بڑی متنوع ہے۔ جس کی آمدنی بہت کم ہے، وہ بہت مجبور ہو چکا ہے۔ جس کی آمدنی کافی زیادہ ہے، وہ مہنگائی میں بھی سب کچھ خرید سکتا ہے اور اسے رقم خرچ کرنے سے پہلے بہت سوچنا نہیں پڑتا۔
ابھی حال ہی میں پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں کے طور پر قومی اسمبلی کے ارکان کی فی کس ماہانہ تنخواہیں ایک لاکھ 80 ہزار روپے سے بڑھا کر پانچ لاکھ 19 ہزار روپے کر دینے کا جو فیصلہ کیا گیا، اس کے بعد منتخب عوامی نمائندوں کی یہ تنخواہیں اب تقریباﹰ تین گنا بڑھ گئی ہیں۔ پاکستان میں یہ فیصلہ اس لیے عوامی غصے کو مزید ہوا دینے کا سبب بنا کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ سرکاری اخراجات کی مد میں ایک اور بڑی خبر عوام کے لیے حیرانی کا باعث بنی تھی۔
حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اپنے جونیئر افسران کے لیے 1100 نئی گاڑیاں خریدنے کی تجویز دی تھی، جس پر عوامی خزانے سے اربوں روپے خرچ کیے جانا تھے۔ وہ بھی ایسے حالات میں، جب پاکستان کے لیے اپنے مالیاتی وسائل کے بحران کی وجہ سے اپنے ذمے بیرونی ادائیگیوں کو یقینی بنانا کٹھن منزل بن چکا ہے۔
کئی سماجی اور اقتصادی حلقے ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں تین گنا کر دینے کے حوالے سے یہ سوچ کر لاجواب ہیں کہ کیا پاکستان میں شدید مہنگائی سے صرف منتخب عوامی نمائندے ہی متاثر ہوئے ہیں؟ یا ان پاکستانیوں کی زندگی بھی مہنگائی کے باعث بڑا امتحان بن چکی ہے، جس کی نمائندگی یہ منتخب سیاستدان کرتے ہیں اور جن کے مسائل کے حل کے لیے ہی یہ منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں آتے ہیں۔
اس بارے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد کے ایک رہائشی بلال احمد نے کہا، ”ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کسی بھی انصاف پسند جمہوری معاشرے کی طرح ان تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے یہ سوچا جاتا کہ ایسا ہی فیصلہ ان تمام پاکستانیوں کے لیے بھی کیا جانا چاہیے، جن کی فی کس ماہانہ آمدنی بہت کم ہے اور جن کا حق ہے کہ حکومت ان کی زندگیاں بھی آسان بنائے۔‘‘
بلال احمد نے کہا، ”2024 میں وفاقی حکومت نے کم ازکم ماہانہ اجرت میں 15 فیصد اضافہ کیا تو یہ رقم بڑھا کر 32 ہزار سے 37 ہزار کر دی گئی۔ فرق صرف 5000 ہزار روپے ماہانہ کا پڑا تھا۔ اب ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں 180000 ماہانہ سے بڑھا کر 519000 ماہانہ کر دی گئیں۔ تو کیا کم آمدنی والے طبقے کے لیے پانچ ہزار روپے کا اضافہ کافی تھا؟ اب کیا قومی اسمبلی کے ہر رکن کی تنخواہ میں ماہانہ تقریباﹰ 340000 روپے کا اضافہ واقعی ناگزیر تھا؟‘‘
اسی سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے جب سابق رکن قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکرٹری برائے تعلیم و ثقافتی ورثہ زیب جعفر سے گفتگو کی، تو انہوں نے کہا، ”پاکستان میں نجی شعبے میں کارکنوں کو بہترین تنخواہیں اور مالی مراعات مل رہی ہیں۔ سرکاری شعبے میں نوکر شاہی اور عدلیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کی تنخواہیں بھی اچھی خاصی ہیں۔ لیکن اگر اراکین پارلیمان کی تنخواہوں میں اضافے کی بات کی جائے، تو اسے فوراﹰ مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔‘‘
زیب جعفر نے بتایا، ”ماضی میں صرف سماجی اشرافیہ اور جاگیر دار طبقہ ہی پارلیمان میں پہنچتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب کئی منتخب ارکان ورکنگ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ مہنگائی نے انہیں بھی تو متاثر کیا ہے۔ کچھ رکن خواتین ایسی بھی ہیں، جو لوکل ٹرانسپورٹ پر پارلیمنٹ میں آتی ہیں۔ ایک ممبر نیشنل اسمبلی کا تو جب ایک حادثے میں انتقال ہوا، تو پتہ چلا کہ وہ کچے گھر میں رہتے تھے۔ کوئی جاگیردار نہیں، بلکہ ایک سفید پوش انسان۔ تو ایم این ایز کو جب اچھی تنخواہیں ملیں گی، تو وہ دلجمعی سے اپنا کام کر سکیں گے۔‘‘
پاکستانی قومی اسمبلی کی سابق رکن وجیہہ قمر نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ تنخواہیں اچانک نہیں بڑھیں۔ کئی سالوں سے ان پر بات ہو رہی تھی۔ ہمیشہ کہا جاتا تھا کہ ان تنخواہوں میں اضافے پر عوامی ردعمل شدید ہو گا، اس لیے رہنے دیں۔ اب یہ اضافہ ہو گیا ہے، تو ہر طرف سے تنقید کی جا رہی ہے۔ سرکاری محکموں میں گریڈ بائیس کے افسران کی تنخواہیں دیکھیں، تو احساس ہو گا کہ یہ اضافہ بھی کم ہے۔ پارلیمانی ارکان اپنا سارا وقت عوامی فلاح کے لیے وقف کرتے ہیں۔ اگر دوسروں کو بھی اچھی تنخواہیں اور مالی مراعات مل رہی ہیں، تو یہ منتخب عوامی نمائندوں کا حق کیوں نہیں ہو سکتیں؟‘‘
مسلم لیگ نون کے سینٹر طلال چوہدری نے اس ضمن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس حکومتی اقدام کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ اس وقت خطے میں سب سے کم پاکستان کے پارلیمنٹیرینز کی تنخواہیں ہیں۔
’اشرافیہ بھی قربانی دے‘
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور ان میں اضافے کو ان عوامی نمائندوں کے حالات کار اور فرائض کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ مہنگائی اور افراط زر کے پیش نظر عام شہری کہتے ہیں کہ مالیاتی بحران ہے، تو اعلیٰ سرکاری اور فوجی افسران، اشرافیہ، اور اراکین پارلیمان بھی قربانی دیں۔ ضیغم خان کے مطابق اس اضافے کے بعد بھی دیکھا جائے تو اسمبلی ممبران کی تنخواہیں اب بھی اتنی نہیں، جتنی ان کی ذمے داریوں کے پیش نظر ہونی چاہیئں۔ ان کے بقول زیادہ تر جمہوری ممالک میں پارلیمانی ارکان کو ملنے والی ایسی اوسط ماہانہ تنخواہیں اور مراعات کہیں زیادہ ہیں۔
ضیغم خان نے کہا، ”ایک ایم این اے کی ماہانہ تنخواہ مراعات ملا کر اگر دس لاکھ روپے بھی ہو جائے، تو ایسا ہونا غلط نہیں ہو گا۔ پارلیمانی ارکان اپنے فرائض اچھی طرح انجام دیں، ایوان کی کارروائی میں باقاعدگی سے حصہ لیں، ملک کو اچھے اور منصفانہ قوانین دیں، ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ان کا عوامی احتساب بھی ہو، تو کسی بھی منتخب رکن کی خدمات اس کی تنخواہ سے کم نہیں ہوں گی۔‘‘
واپس کریں