فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے صیہونی منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء سے متعلق اپنے فیصلہ کی اقوام عالم کی جانب سے مخالفت کے باوجود گزشتہ روز پھر اس فیصلہ پر اپنا بیان دہرا دیا اور ساتھ ہی اسرائیل کو یہ ہدایت بھی کر دی کہ غزہ میں جنگ کے خاتمہ کے بعد وہ اس علاقے کو امریکہ کے حوالے کر دے۔ امریکی صدر کے بقول فلسطینیوں کی غزہ سے منتقلی کے عمل میں فوج کی ضرورت نہیں پڑیگی۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کے ’’رضاکارانہ‘‘ انخلاء کے انتظامات مکمل کرنے کی بھی ہدایت کی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے فلسطینیوں کی غزہ سے منتقلی سے متعلق امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے صیہونی فوج کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ ایک ایسا منصوبہ تیار کرے جس کے تحت غزہ کی پٹی کے فلسطینی باشندے رضاکارانہ طور پر اپنے علاقوں کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ اس منصوبے کے تحت فلسطینیوں کو سمندری‘ فضائی اور زمینی راستے سے دنیا کی کسی بھی جگہ پر جانے کی اجازت ہوگی اور اس کیلئے انتظامات بھی کئے جائیں گے۔
فلسطینیوں کی نمائندہ عسکری تنظیم حماس نے امریکی صدر کے اس جبری منصوبے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں حماس کے ترجمان حازم قاسم نے خبردار کیا کہ امریکی صدر ٹرمپ کا غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ درحقیقت فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنے کے منصوبے کا اعلان ہے۔ انہوں نے اپنے جاری کردہ بیان میں غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کا مقابلہ کرنے کیلئے فوری طور پر عرب ممالک کا سربراہی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح حزب اللہ کے ایک عہدیدار نے فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کے امریکی منصوبے کو مجرمانہ قرار دیا جبکہ یمنی حوثیوں نے بھی غزہ پر ٹرمپ کے تبصرے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یمن فلسطینی عوام کیخلاف ہر قسم کی جارحیت کا مقابلہ کرنے میں فلسطین کے شانہ بشانہ ہے۔ سعودی عرب پہلے ہی ٹرمپ کے اس منصوبے کو سخت الفاظ کے ساتھ مسترد کر چکا ہے اور باور کراچکا ہے کہ آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام تک وہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا۔
پاکستان کی جانب سے بھی فلسطینیوں کے غزہ سے انخلاء کے امریکی منصوبے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے باضابطہ طور پر بیان جاری کیا گیا جس میں غزہ کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی تجویز کو انتہائی تشویشناک اور غیرمنصفانہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ فلسطینی سرزمین فلسطینی عوام کی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دو ریاستی حل ہی واحد قابل عمل اور منصفانہ آپشن ہے۔ بیان میں دوٹوک الفاظ میں باور کرایا گیا کہ پاکستان فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے ساتھ ساتھ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی رہا ہے اور رہے گا جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو غزہ پٹی سے نکالنے کے منصوبے کے اعلان سے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی صیہونی ’’بلی‘‘ تھیلے سے باہر آگئی ہے اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ فلسطینیوں کی اسرائیلی فوجیوں کے ذریعے نسل کشی اور انکے قتل عام کے پیچھے امریکی ہاتھ ہی کارفرما ہے جس کے لیئے ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز سمیت ہر امریکی حکومت صیہونیوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر اسرائیلی ریاست کے ناجائز قیام سے اب تک اسکی توسیع اور فلسطینی سرزمین پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ رکھنے کے اسرائیل کے ہر عمل اور ہر اقدام میں اسکی سہولت کار بنی ہوتی ہے چنانچہ ری پبلکن ٹرمپ بھی امریکی صدر کیلئے عالمی امن کے قیام کے نعرے پر دوسری بار منتخب ہو کر فلسطینیوں پر ارض فلسطین تنگ کرنے کے صیہونیوں کے منصوبے کی تکمیل میں انکی سہولت کاری کا عملی نمونہ بنے نظر آتے ہیں اور عالمی امن کو یقینی بنانے کے بجائے دنیا کو جنگ وجدل کی نئی لہر کی جانب دھکیلنے میں پیش پیش ہیں۔ اس لئے اقوام عالم بالخصوص مسلم دنیا کی قیادتوں کی یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ امن کے نام پر بالخصوص امریکی مسلمانوں سے ووٹ لینے والے ڈونلڈ ٹرمپ ان کیلئے امن وآشتی کا کوئی کردار ادا کرینگے۔ اسکے برعکس وہ مسلمانوں کے بے دریغ قتل عام کے صیہونی عزائم کو انکی خواہشات کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرتے نظر آرہے ہیں جو امریکہ کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں خوش فہمیوں میں مبتلا مسلم قیادتوں کیلئے یقیناً لمحہ فکریہ ہے کیونکہ جن صیہونیوں کو خود ذات باری تعالیٰ نے اپنے صحیفہ آسمانی قرآن مجید میں راندہ درگاہ ٹھہرایا اور ان مردودوں کے خلاف امت مسلمہ کو جنگ کا حکم دیا‘ انکے ساتھ کسی خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ صیہونیوں کے اسی سازشی ذہن کو پروان چڑھانے کیلئے امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری الحادی قوتوں نے 1947ء میں ارض فلسطین پر ناجائز اسرائیلی ریاست قائم کی جس نے فلسطینیوں کو ہی اپنی سرزمین سے نکالنے کے مذموم منصوبے کا آغاز کر دیا۔ فلسطینیوں نے شروع دن سے ہی صیہونیوں کے ان توسیع پسندانہ عزائم کو قبول نہیں کیا اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کیلئے قربانیوں سے لبریز اپنی جدوجہد کا آغاز کیا جو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) سے حزب اللہ اور حماس تک آج بھی جاری ہے اور آج صیہونی طاقتوں کی مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی جا رہی ہے۔
یہ طاقتیں درحقیقت اتحاد امت کو پارہ پارہ کرنے کیلئے سرگرم ہیں اور اس مقصد کیلئے ہی وہ خطہ عرب میں اسرائیل اور جنوبی ایشیاء (برصغیر) میں بھارت کے مسلم کش جنونی اور توسیع پسندانہ عزائم و اقدامات کی کھل کر سرپرستی کر رہی ہیں جبکہ انسانی حقوق کی خودساختہ چیمپئن عالمی تنظیموں نے اسرائیل اور بھارت کے ان اقدامات کے خلاف دانستاً مصلحتوں کے لبادے اوڑھ رکھے ہیں اور منہ میں گھنگنیاں ڈالی ہوئی ہیں۔ اس حوالے سے مسلم قیادتوں کی مصلحت کیشی تو انتہائی افسوسناک ہے کیونکہ مسلم قیادتوں کے اس کردار و عمل سے ہی الحادی قوتوں کو اسرائیل اور بھارت کی سرپرستی کرکے مسلم امہ کو کمزور کرنے کی سازشیں پایہ تکمیل کو پہنچانے کا موقع مل رہا ہے۔ فلسطینیوں کو ارض فلسطین سے بیدخل کرنے کے امریکی منصوبے کا اس سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ڈیموکریٹ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے منصب کا حلف اٹھاتے ہی پہلا حکم یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور وہاں امریکی سفارت خانہ قائم کرنے کا صادر کیا اور اب ری پبلکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منصب کا حلف اٹھاتے ہی غزہ کو فلسطینیوں سے مکمل طور پر خالی کرانے اور اس کیلئے اسرائیل کی بھرپور معاونت کرنے کا جاری کیا ہے جس پر اسرائیل نے عملدرآمد کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ اگر مسلم قیادتیں اب بھی مصلحت کیشی کا شکار رہیں تو پھر ایک ایک کرکے ہر مسلم ریاست صیہونیوں اور الحادی قوتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کی لپیٹ میں آتی رہے گی اور ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘
واپس کریں