
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد ان تمام متنازع اقدامات کو نافذ کرنا شروع کر دیا ہے جنکا اپنی انتخابی مہم میں اعلان کیا تھا۔ انکی حلف برداری کی تقریب میں ایک درجن سے زائد ارب پتی موجود تھے جو ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ دولت کے مالک ہیں۔صدر ٹرمپ نے بھی اپنے اقدامات سے ارب پتی سرمایہ کاروں کو نئے نئے منصوبوں سے آشنا کرایا ہے لیکن عام ورکر کی صحت، تعلیم اور روزگار کے بارے میں کوئی اعلان نہیں کیا ۔ منتخب ہونے کے بعد اہم اقدامات میں چھ مئی 2021کے تقریباً 1500 ذمہ داران کو مکمل طور پر معافی دینا، امریکہ سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بد ر کرنا، پانامہ کینال پر امریکی قبضہ، میکسیکو کی سرحد پر ملٹری فورس کے ذریعے ایمرجنسی نافذ کرنا، سیاسی پناہ اور پیدائشی حق شہریت کو ختم کرنا،موت کی سزا کو دوبارہ متعارف کرانا، خواجہ سرائوں کی صنف کو تسلیم کرنے سے انکار، پیرس معاہدے سے دستبردار ہونا، قابل تجدید ذرائع سے واپس فوسل فیولز پر منتقلی اور الیکٹرک گاڑیوں پر نئی پابندیاں شامل ہیں۔
صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او سے بھی علیحدگی کا اعلان کیا جو انکی انتخابی مہم کا حصہ نہ تھا، لیکن اس اعلان سے تیسری دنیا کے ممالک کو موذی بیماریوں سے نمٹنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ڈبلیو ایچ او کی ٹوٹل فنڈنگ میں امریکہ کا حصہ تقریبا~18فیصد تھا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے 11ملین غیر قانونی تارکین وطن ورکرزکی بے دخلی کے اعلان سے دو بڑے سیکٹرز یعنی زراعت اور تعمیراتی صنعت کو سب سے زیادہ نقصان ہو گا۔ امریکی لیبر ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق نومبر 2024تک سات ملین سے زیادہ امریکی بیروزگار تھے لیکن ان میں زیادہ تر افراد ٹیکنالوجی، قانون اور میڈیا کے وائٹ کالر ملازمتوں کے متلاشی ہیں۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ غیر ملکی تارکین وطن امریکی لیبر فورس سے نوکریاں چھین رہے ہیں جبکہ حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے۔ حالانکہ کئی سیکٹرز تو ایسے ہیں جہاں امریکی ورکرز کام ہی نہیں کرنا چاہتے۔ اس پالیسی سے خدشہ ہے کہ 2025ء تک امریکہ کی جی ڈی پی 0.4فیصد کم ہو جائے گی اور افراط زر میں بھی 3.5فیصد اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ مالکان کو مزدوری کیلئے نئے اور مہنگے ورکرز کو لانا ہو گا۔ آج بھی امریکہ میں بیس فیصد لوگ جن کی عمریں پچاس سال سے زائد ہیں، انکی سیونگ نہ ہونے کے برابر ہے اور لوگ اپنی ریٹائرمنٹ کے نزدیک بھی اپنے مستقبل کیلئے پیسے نہیں بچا پا رہے۔
ماحولیاتی معاہدے سے سدستبردار ہونے کے بعد امریکہ دراصل ایران، لیبیا اور یمن کے ساتھ ملکر چوتھا ملک بن گیا ہے جس نے پیرس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔یاد رہے کہ امریکہ 1751ء سے آج تک دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کرنے والا ملک ہے جو اب تک 400 بلین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ خارج کر چکا ہے لیکن ماحولیاتی تباہی کے باوجود صدر ٹرمپ فوسل فیولز انڈسٹری کو نت نئے طریقے سے واپس لارہے ہیں اور وہ الیکٹرک گاڑیوں اور دوسرے متبادل ذرائع توانائی پر مکمل طور پر پابندی لگانے کے خواہاں ہیں۔ اسکے علاوہ ٹرمپ کے حامیوں نے انہیں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی سے نکلنے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی جیسے اہم بین الاقوامی اقدامات میں امریکی تعاون کو ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سبز انقلاب کے خلاف تعصب صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے بلکہ کینیڈا اور ناروے میں دائیں بازو کی جماعتیں جو حکومت بنا سکتی ہیں، وہ پہلے ہی ’’ماحولیات دوست‘‘ پالیسیوں کو ختم کرنےکا عندیہ دے رہی ہیں۔ اسی طرح تیل کی بڑی کمپنیاں جن میں شیل بھی شامل ہے، کم منافع بخش قابل تجدید ذرائع توانائی میں سرمایہ کاری ختم کرکے زیادہ منافع بخش فوسل فیولز منصوبوں کو بڑھا رہی ہیں۔ ٹرمپ نے بھی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ بڑے پیمانے پر تیل اور گیس کی تلاش کے منصوبے بنا رہے ہیں جسکی وجہ سے امریکہ میںتیل اور گیس کی قیمتیں کم ہو جائیں گی۔ اسی وجہ سے ٹرمپ ڈنمارک سے گرین لینڈبھی لینا چاہتے ہیں جو معدنیات اور تیل کا بڑا ذخیرہ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ یاد رہے کہ پچھلی ایک صدی سے سرمایہ درانہ نظام نے اپنے منافع کے حصول کیلئے جس بیدردی سے نیچر کو استعمال کیا ہے، اس ہوس کا نتیجہ آنے والے وقت میں اس کرہ ارض پر موجود تمام حیاتیات کو بھگتنا پڑے گا۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر پانامہ کینال پر بھی امریکی قبضے کا اعلان کیا ہے۔ یہ 83کلو میٹرلمبی نہر 1914ء میں امریکی مدد سے مکمل ہوئی جسکی وجہ سے بحری جہازوں کو 12825کلو میڑ کی مسافت کو کم کرنے کا موقع ملا۔ 1979تک اس پر امریکہ کا قبضہ رہا لیکن پھر بات چیت کے بعد 31دسمبر 1999کو اس نہر کو مکمل طور پر پانامہ کے حوالے کر دیا گیا جس سے اب تک دس لاکھ سے زائد بحری جہاز گزر چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ 25ہزار امریکی جانیں ضائع ہونے کے باوجود چین اس نہر کو کنٹرول کر رہا ہے جہاں سے ہر سال 2بلین ڈالرز کا ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ میکسیکو اور لاطینی امریکہ کے خلاف ٹرمپ کے یہ اقدامات دراصل مونرو ڈاکٹرائن کا ہی ایک تسلسل ہیں جسے اکیسویں صدی میں صدر ٹرمپ دوبارہ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں بار بار ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کا نعرہ لگایا اور کہا کہ وہ ممالک جو امریکہ سے تجارت کرکے امیر سے امیر تر ہو رہے ہیں، ان پر ٹیرف لگایا جائے گا، ان ممالک میں کینیڈا اور چین شامل ہیں۔ وہ روس اور یوکرین کی جنگ کے خاتمے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں لیکن اب یہ دیکھنا ہو گا کہ جنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ وہ امریکی اسلحے کو کیسے فروخت کرتے ہیں کیونکہ2023ء میں دنیا بھر میں فروخت ہونے والے اسلحے میں سے 50فیصدحصہ امریکی کمپنیوں کا تھا جسکی لاگت 313بلین ڈالرز تھی۔
واپس کریں