محکمہ ایکسائز کی چشم پوشی پشاور میں منشیات کے دھندے کو محفوظ بڑھاوا دے رہی ہے

(خصوصی رپورٹ ،خالد خان)پشاور کی ہلچل سے بھرپور شہر کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی، اس بات سے بے خبر کہ اس کے بیچوں بیچ منشیات کی ایک غیر قانونی فیکٹری برسوں سے کام کر رہی تھی۔ یہ کسی دورافتادہ قبائلی پٹی یا کسی ویران پہاڑی علاقے میں قائم خفیہ فیکٹری نہیں تھی بلکہ پشاور کے قلب، پہاڑی پورہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں عرصہ دراز سے دیدہ دلیری کے ساتھ چلائی جا رہی تھی۔ اس فیکٹری میں انسانیت دشمن منشیات، آئس اور ہیروئن بن رہی تھیں، جس کی پیداوار ہزاروں گرامز میں بتائی جاتی ہے۔ اس مہلک مادے کی تیاری کے باوجود نہ تو مقامی پولیس اور نہ ہی محکمہ ایکسائز کے پاس کوئی سراغ تھا۔ یا شاید، انہوں نے بے خبر رہنے کے فوائد پر کوئی سودا بازی کی تھی۔ منطقی انداز میں سوچا جائے تو یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی کہ یہ مکروہ دھندہ مقامی پولیس، ایکسائز اور دیگر متعلقہ محکموں کی لاعلمی میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ یہاں بجائے دال میں کچھ کالا نظر آنے کے، ساری دال ہی کالی لگ رہی ہے۔
جب ایکسائز انٹیلی جنس نے بالآخر چھاپہ مارا تو انہوں نے منشیات بنانے کا ایک پورا سیٹ اپ دریافت کیا—مشینیں، کیمیکل، وزنی ترازو، اور پیکیجنگ کا سامان، جو اس تمام کام کے لیے ضروری تھا، موجود پایا گیا۔ فیکٹری کا مالک، جو کہ ایک افغان شہری ہے، بھاگنے میں کامیاب ہوا لیکن اس کا پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات قبضے میں لے لیے گئے۔ اصل سوال جو جواب طلب ہی رہا کہ اتنی بڑی غیر قانونی اور انسانیت سوز سرگرمی اتنی دیر تک بغیر جانچ کے کیسے جاری رہی؟
اس کہانی میں محکمہ ایکسائز کا کردار پریشان کن اور مشکوک ہے۔ سڑکوں پر گشت کرنے اور ناکے لگانے والے ایکسائز اسکواڈز کے ساتھ دیہاڑی دار نجی ملازمین ہوتے ہیں جو جامہ تلاشی، گاڑیوں کا معائنہ کرنے اور عام شہریوں سے پیسے بٹورنے میں مصروف ہوتے ہیں، جو کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں دیتے کہ ان کے ناک کے نیچے، عین پشاور شہر کے بیچوں بیچ جدید مشینوں کے ذریعے منشیات کی صنعتی پیداوار ہو رہی ہے۔
مزید صحافیانہ تفتیش سے پتہ چلا کہ ایکسائز اسکواڈز، مجرمانہ نیٹ ورکس پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے، اپنے ناجائز منافع کے اضافے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ محکمہ کے نام پر کام کرنے والے غیر مجاز افراد نے سڑک کے کنارے چیکنگ کو ذاتی کاروبار میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ عارضی عملہ مبینہ طور پر روزانہ کی اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہوئے عام شہریوں سے پیسے لیتے ہیں، جبکہ منشیات کے اسمگلرز بغیر کسی مداخلت کے اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس طرح کے واقعات اور حالات صوبے کے دیگر شہروں سے بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ مردان اور اٹک سے غیر مجاز اہلکاروں کو ایکسائز اسکواڈز میں دیکھا گیا ہے، جو مبینہ طور پر ہائی وے چوکیوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد میں، انٹیلی جنس ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے عناصر جھاری کس، حطار، حویلیاں اور مانسہرہ میں سرگرم ہیں، جو سرکار کے نام پر قابل اعتراض سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ گزشتہ ماہ جھاری کس کے قریب ایک تصادم کے نتیجے میں گولی چلی، جس سے ایک غیر مجاز شخص، جو ایکسائز کا نجی دیہاڑی دار تھا، زخمی ہوا، پھر بھی ان نجی اہلکاروں کی موجودگی سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔
عوام میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے، حکام سے محکمہ کو ان ناپسندیدہ عناصر سے پاک کرنے کے بار بار مطالبات ہوئے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ نظام بدستور برقرار ہے۔ پشاور میں منشیات کی فیکٹری پر چھاپہ محض ایک کامیاب کارروائی نہیں—بلکہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قانون نافذ کرنے والے کس طرح مجرمانہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کرتے ہیں، جرائم کو اس وقت تک پنپنے کی اجازت اور تحفظ دیتے ہیں جب تک عوامی دباؤ انہیں کارروائی کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔
واپس کریں