
فروری پاکستان کانام تجویز کرنے والے ايک مخلص سیاست دان چوہدری رحمت علی کی وفات کا مہینہ ہے، جن کو دنیا کا پہلا پاکستانی کہا جاتا ہے۔ چوہدری رحمت علی 16نومبر 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں موہراں میں ایک متوسط زمیندار کے گھر پیدا ہوئے، 3فروری1951 ءکی صبح اس عظیم محسن نے کسمپرسی کی حالت میں برطانیہ میں اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ پیارے وطن کا نام تجویز کرنے والےچوہدری رحمت علی کے پاکستان کو دنیا نے تسلیم کیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سیاست دانوں، بیورو کریٹس اور اشرافیہ نے صرف اپنے مفاد کیلئے اسے تسلیم کیا مگر دل سے قبول نہ کیا، آج جبکہ ملک کی معاشی صورت حال حددرجہ ابتر ہے کسی بھی جانب سے یہ آواز سامنے نہیں آئی کہ ہم ملک کو بچانے کی خاطر اپنے بیرون ِملک اثاثے پاکستان لانے کو تیار ہیں،عوام اور افواج پاکستان مسلسل مالی اور جانی قربانیاں دے کر ریاست کی آبیاری کر رہے ہیں، اس وقت عام آدمی کا کیا حال ہے کسی کو اس سے غرض نہیں، عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ فیصلہ چار تین کا ہے یا تین دو کا، کس کی حکومت ہے۔ ملک کا چیف جسٹس کون ہے آرمی چیف کون ہے۔ انہیں تو بس اپنے اور اپنے بچوں کیلئے رزق، روزگار اور امن و امان کی فکر ہے، وہ تو اس میں الجھے ہوئے ہیں کہ بجلی، گیس نہ آنے کے باوجود بھاری بلز کیسے ادا کریں گے، ملک میں سیاسی عدم استحکام کو بڑھایا جا رہا ہے، پھر دارالحکومت پر لشکر کشی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، سڑکیں بند کر کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے، ملک کو عدم استحکام کا شکار کر کے کون سی حب الوطنی کا ثبوت دیا جائیگا، سیاسی ذہن کے حامل سیاست داں سیاست کو سمجھتے ہیں، وہ جذبات سے نہیں سوچ سمجھ کر فیصلے کرتے ہیں۔ اس میدان میں فراست کی اہمیت ہوتی ہے، کسی پارٹی یا شخصیت سے متاثر ہونا یا کسی نظریے کی تائید کرنا بالکل ذاتی معاملہ اور ہر ایک کا حق ہے، اسی طرح مخالفت بھی کی جا سکتی ہے مگر تہذیب اور شائستگی کو نہیں چھوڑنا چاہئے، سیاست میں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی کی شخصیت کے سحر میں اس طرح گرفتار ہوا جائے کہ اس کی ہر بات کی اندھی تقلید شروع کر دی جائے، ایک دور تھا جب لوگ بانی پی ٹی آئی کے دیوانے تھے مگر اب ان کا یہ سحر ٹوٹ چکا ہے، پاکستان تحریک انصاف اس وقت اسی پوزیشن پر جا رہی ہے جو ماضی میں تحریک استقلال کے ساتھ ہوا، ایک زمانہ تھا کہ ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی کال پر لوگ دیوانہ وار سڑکوں پر نکل آتے تھے مگر ان کی غیر ضروری اصولی سیاست جس میں مفاہمت کا عنصر ناپید تھا انکے سیاسی خاتمے کا سبب بن گیا، ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت وقت کے ساتھ سکڑتی چلی گئی، 1999ء کے بعد انکے اپنے بیٹے دوسری جماعتوں میں شامل ہو گئے، ایئر مارشل اصغر خان نے صورتحال دیکھ کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی، بانی پی ٹی آئی بھی ان دنوں ضد کی سیاست کر کے اپنی مقبولیت کا منفی استعمال کر رہے ہیں، ملک کی سالمیت و خود مختاری کے ضامن اداروں کے خلاف عوام کو اکسانے کے شواہد اور واقعات کی ذمہ داری عمران خان کے سر ہے۔ نو مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے جس کے مقدمات عدالتوں میں ہیں جس پر کمیشن نہیں بن سکتا ہے، اس کا فیصلہ اور انصاف اب عدالتوں کے ہاتھوں میں ہے، پارلیمانی کمیشن کا قیام ماضی میں عمران خان کی پیش کش کا حصہ رہا ہے، پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات یحییٰ خان نے 1970ء میں کرائے جس کے نتائج کو جمہوری اصولوں کے مطابق تسلیم کر کے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کرنے کے بجائے ملک کو دولخت کر دیا گیا اکثریت حاصل کرنیوالی جماعت کو اقتدار نہیں دیا گیا۔ سیاستدانوں نے ذاتی اقتدار کی خاطر غیر جمہوری طرز عمل اختیار کیا۔ 2018کے الیکشن میں عمران خان کو جس انداز سے اقتدار میں لایا گیا، اس سے ملک معاشی اور سیاسی طور پر کم زور ہوا، پچھلی حکومت کے کئی منصوبے مکمل نہ ہو سکے، ترقیاتی کام رک گئے، ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا گیا، موجودہ حکومت نے قلیل عرصے میں وطن عزیز کو ڈیفالٹ سے بچایا، تاجروں کا اعتماد بحال کیا، معاشی بہتری کیلئے سیاسی اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہیں جو ملک کو بحران سے نکال کر مضبوطی کی راہ پر لے جانا چاہتی ہے، قوم اپنے اداروں اور حکمرانوں کے ساتھ کھڑی ہے کوئی خوش فہمی میں نہ رہے کہ عوام افراتفری پھیلانے والوں کا ساتھ دیں گے، موجودہ حکومت کو بلوچستان میں امن پر توجہ دینا ہو گی، پارلیمانی نمائندوں کی مدد سے وہاں کے مسائل کا حل ڈھونڈا جائے، ملک میں نئے انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اس سے پہلے کسی انتخاب کی گنجائش نہیں۔ ملک پہلے ہی سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کی وجہ سے مشکلات اور بے پناہ مسائل سے دوچار ہے، ان حالات میں کسی قسم کی تحریک اور احتجاج ملک کے خلاف گہری سازش کا اشارہ دیتے ہیں، اپوزیشن کو حکومت کے ساتھ مذکرات کا عمل بحال کرنا چاہئے، اس سے اس کی سیاسی ساکھ کو فائدہ ہو گا، انتشار کی سیاست کا وقت گزر چکا ہے، پی ٹی آئی نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے امید لگانے کے بجائے اپنی حکومت اور اداروں سے توقعات لگائے، ڈونلڈ ٹرمپ کا موجودہ عہد حکومت ان کے دعووں کے مطابق امریکا کو بدل بھی سکتا ہے اور برباد بھی کر سکتا ہے، ٹرمپ کو اپنے منشور کے بجائے دنیا میں امن کے دعوے کو ثابت کرنا ہو گا، نئے محاذ کھولنا خود امریکا کے حق میں بھی بہتر نہیں ہو گا۔ امریکا نے اس وقت بڑے تجارتی شراکت داروں چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے ٹیرف عائد کر دئیے ہیں، تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکو پر عائد تجارتی ٹیرف کو ایک ماہ کیلئے مؤخر کر دیا۔ کینیڈا کے ساتھ اس کے تعلقات مزید بگڑ رہے ہیں، چین بھی نالاں ہے، روس کو یوکرائن کو اسلحہ دینے پر بے چینی کا سامنا ہے، فلسطین اور کشمیر کے ایشوز اس وقت سب سے اہم حل طلب مسائل ہیں، جن پر دنیا بھر کی نظریں مرکوز ہیں۔
واپس کریں