
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اساتذہ اور ریسرچرز کو 100فیصد انکم ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس بھیجنا شروع کر دیے۔ دوسری جانب، حکومت کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ٹیچرز اور ریسرچرز کے لیے انکم ٹیکس میں 25فیصد چھوٹ دینے کی اجازت بھی مانگی گئی ہے۔ اساتذہ اور ریسرچرز کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ تعلیم اور تحقیق کو فروغ دینا کسی بھی ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں یہ شعبے نظرانداز رہے ہیں۔ پہلے ہی وسائل کی کمی، تنخواہوں میں عدم استحکام، اور سائنسی تحقیق کے لیے ناکافی فنڈنگ جیسے مسائل اساتذہ اور محققین کو درپیش ہیں۔ بجائے سہولت فراہم کرنے کے اب ان پر ٹیکس کا مزید بوجھ ڈالنا انھیں مزید مشکلات سے دوچار کر دے گا۔ پاکستان میں ایسے کئی ادارے اور مراعات یافتہ شخصیات موجود ہیں جنھیں ٹیکس سے مکمل استثنا حاصل ہے۔ بڑی سرکاری شخصیات، بیوروکریٹس اور کچھ دیگر مراعات یافتہ طبقات کے لیے تو خصوصی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں مگر جن کا کام علمی و تحقیقی ترقی کو فروغ دینا ہے انھیں معاشی بوجھ کے تلے دبایا جا رہا ہے۔ یہ حکومتی پالیسیوں میں موجود واضح تضاد کی عکاسی کرتا ہے۔ حکومت کو اساتذہ اور محققین کو ٹیکس میں زیادہ سے زیادہ رعایت دینی چاہیے تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنایا جا سکے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کو اپنی معیشت کو مضبوط بنانے اور بیرونی اداروں پر انحصار کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک معیشت مستحکم نہیں ہوگی، ایسے فیصلے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دباؤ میں ہی کیے جاتے رہیں گے۔اساتذہ اور ریسرچرز پر 100 فیصد ٹیکس لگانے اور پھر اس میں 25 فیصد رعایت کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت لینے کی پالیسی قومی خودمختاری کے اصولوں کے منافی ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کے تعلیمی نظام پر ہوتا ہے اور اگر تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کو ہی مالی دباؤ میں رکھا جائے گا تو ترقی کا خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے تعلیمی شعبے سے وابستہ افراد کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے اور معاشی معاملات کے حوالے سے بیرونی دباؤ سے آزاد ہو کر خودمختارانہ فیصلے کرے۔
واپس کریں