2024ءاپنی قہر سامانیوں، سفاکیوں، المیوں، سانحوں، منافقتوں، سازشوں، بد زبانیوں اور خون کی مہک کے ساتھ اب آخری دموں پر ہے۔2025۔ کیسا ہوگا۔ ابھی سے ہم سب پر لرزہ طاری ہے کیونکہ کہیں کوئی ایسا پاکستانی نظر نہیں آرہا ہے جو ریاست کے اداروں اور عوام کے درمیان اعتماد پیدا کرسکے۔ریاست پہلی بار اتنی کٹھور نظر آرہی ہے کہ سوتیلی مائیں بھی کیا ہوتی ہوں گی۔ویسے سب کچھ اپنی جگہ چل رہا ہے ۔ ایوان صدر ہے، مگر صدارتی تدبر نہیں ہے۔ وزیر اعظم ہائوس ہے لیکن لیاقت علی خان والی لیاقت ہے نہ ذوالفقار علی بھٹو جیسی فراست۔ قومی اسمبلی ہے لیکن اجتماعی قیادت نہیں ہے۔ اسپیکر میں معراج خالد اور صاحبزادہ فاروق علی خان والی استقامت نہیں ہے۔ ایوان بالا ہے مگر سخن فہمی نہیں ہے۔
مذاکرات ہورہے ہیں لیکن قدم قدم خدشات۔ کیا دونوں طرف کے شرکا خلوص دل سے حصہ لے رہے ہیں۔ کیا منزل مقصود کا تعین کر لیا گیا ہے۔ اگر صرف ملک کا مفاد، عوام کی خوشحالی سامنے ہو۔ پارٹیوں کے نمائندوں کو پارٹی سربراہوں نے پوری طرح نیک و بد سمجھایا ہو، اپنی غلطیوں پر ندامت ہو، آئندہ ایسی خطائیں دانستہ نہ کرنے کا عزم ہو، لوگ کسے مینڈیٹ دے رہے ہیں،کسے اپنے دلوں میں بسائے ہوئے ہیں۔ واہگہ سے گوادر تک مختلف زبانیں بولنے والے، مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والوں کی خواہش کیا ہے۔ 77سال بعد آنے والی نسل ملک کو کس راہ پر دیکھنا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، سب کو اپنے اپنے منصب، اپنی ذمہ داریوں اپنے حلف کے مندرجات کا احساس ہو اور یہ سب بھی مذاکرات کے نتیجے کا صدق دل سے انتظار کر رہے ہوں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے، فوج، رینجرز، پولیس بھی ان مذاکرات کے نتائج کے منتظر ہوں۔ مذاکرات کے حتمی نتیجے تک ملک میں ماحول سازگار، بیانات، ٹاک شوز اور تقریریوں میں اختلافی شدت سے گریز کیا جارہا ہو، مذاکرات کے فریق اپنے عقابوں کو اونچی اڑانوں سے منع کریں، تلواریں نیام میں رکھ لی گئی ہوں۔ خواجے،چوہدری، میر، آفریدی، مروت، میمن غیر سیاسی قوتوں کے ترجمان نہ بنے ہوں۔ مذاکرات ایوب خان نے بھی کروائے، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی۔ مگر بیانات بند نہ ہونے،در پردہ ملاقاتیں، سازشیں جاری رہیں۔ سمجھوتے بے نتیجہ رہے۔
1971 ءکے دن ہر دسمبر میں یاد آتے ہیں۔ ہندوئوں، سکھوں ،یہودیوں، عیسائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی ہلاکتیں تو طویل پس منظر رکھتی ہیں۔ ان تصادموں کا جواز بھی ہوتا ہے۔ مگر جب قوم رسول ہاشمیﷺ ایک اللہ، ایک قرآن، ایک رسول کو ماننے والے ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں۔ پاکستانی پاکستانی کو ہلاک کرتا ہے۔ مسلمان اپنے ملّی دشمنوں کو بھول کر آپس میں ہی خون بہاتے ہیں تو زمین و آسمان والا بھی قہار بن جاتا ہے۔ فصیلیں لرزنے لگتی ہیں، قلعوں میں شگاف پڑ جاتے ہیں، محلات کی کنگریاں گرنے لگتی ہیں، منڈیریں جھڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔
نومبر1971ءکی ایک سہ پہر کراچی کی کسی شاہراہ پر میں ایک ٹیکسی میں جارہا تھا۔ ان دنوں بھی آج کی طرح لوگ آپس میں زیادہ باتیں کرنے لگ گئے تھے، کہیں سرخ آندھی آنے والی ہو،تو محلوں میں، بازاروں میں ایک دوسرے کو آتی آفتوں سے ڈرانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور کہہ رہا تھا، مجھے ابھی تک یاد ہے۔ ’’یہ جنرلوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی۔ یہ یحییٰ خان کو ہٹاتے کیوں نہیں ہیں۔ ملک اس وقت ایک ایسے گھڑے کی طرح ہے جس میں تریڑ پڑ گئی ہے، ہلکی سی ضرب سے بھی وہ کرچی کرچی ہو سکتا ہے‘‘ میں ہوں ہاں ہی کر سکتا تھا۔ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔ ہر کسی کے ہاتھ میں اسمارٹ فون نہیں تھا۔ محلاتی سازشیں آج کی طرح قبل از وقت بے نقاب نہیں ہوتی تھیں لیکن بیزاری اور برہمی کی شدت آج کی طرح ہی تھی۔ کبھی کبھی مجھے اپنے آپ پر، اپنے ہم عصروں پراپنی نسل پر رشک آتا ہے کہ کتنے المیے ہم نے برداشت کیے، کتنا خون بہتے دیکھا ہے، ایک ڈاکٹر کو کتنی جانیں بے جان ہوتے دیکھنی پڑتی ہیں، ایک مورخ کو کتنی نسلیں دم توڑتے مشاہدہ کرنا پڑتی ہیں۔
میں نے، میری نسل نے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ مثبت پہلو ہی دیکھے ہیں۔ ہماری امید پرستی کو چند خاندانوں نے ہمیشہ اپنے سکوں کی جھنکار سے دبانے کی کوشش کی ہے۔ ڈالر درہم سامنے ہوں تو ہم سب اپنے آپ کو فروخت کیلئے پیش کر دیتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے تو 50فیصد، 30فی صد رعایت کا ٹیگ لگا کر بازار میں آ بیٹھتے ہیں، ہماری رعایتی سیل لگتی ہے، اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان آ جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت AIتو اب آئی ہے، ہمارے بازاروں میں اسٹاکس میں تو AIبہت پہلے سے آئی ہوئی ہے۔ ہماری ترقی جعلی، ہماری جمہوریت مصنوعی صرف ہمارے خسارے، المیے حقیقی رہے ہیں۔
سب مانتے ہیں کہ ملک میں استحکام، ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد سے ہی آئے گا۔ ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلے نہیں ہونے چاہئیں، اداروں کو ریاست کے تابع ہونا چاہئے، حکمرانوں کے نہیں۔ حکمرانوں کو ریاست سے مخلص ہونا چاہئے، ریاستی اداروں سے نہیں۔ مہذب ملکوں نے کتنی جدوجہد سے آئین تصنیف کیے، برسوں کے سوز و ساز، پیچ و تاب کے بعد شہری قوانین کے مسودے رقم کیے، مہینوں ان پر بحث کی۔ ہمارے حکمران طبقوں نے اپنے سرمائے کی بنا پر درجنوں آئینی ترامیم، بیسیوں قوانین ایک اک دن میں چند ثانیوں میں بنا لیے۔ اسی دن ہمارے صدر نے دستخط کر دیے۔ اسی شام گزٹ بھی جاری ہو گیا۔ یہ تحقیق بھی ہونی چاہئے کہ 1951سے اب تک بڑے بڑے قتل کے ملزمان کی شناخت تو نہیں ہو سکی۔ لیکن اب ملزم واردات کے ارتکاب سے پہلے ہی شناخت بھی ہو جاتے ہیں، پکڑ بھی لیے جاتے ہیں۔
بہرحال اب پارلیمنٹ کو اپنا مقام مل رہا ہے، تاریخ پارلیمنٹ کو اپنی غیر جانبداری دکھانے اور ثابت کرنے کا موقع دے رہی ہے۔ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ فوجی عدالتوں سے پاکستانی شہریوں کو ملنے والی سخت سزائوں پر سخت ردّ عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ وزارت خارجہ کو ثابت کرناہے کہ اب 1971ءنہیں ہے۔ ہماری انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانشور ابھی گو مگو میں ہیں۔ وکلا پہلے کالے کوٹ پہن کر سفید سڑکوں پر آجاتے تھے۔ اب وہ آئین اور قانون کی کتابیں پڑھ رہے ہیں کہ تحریک چلانی چاہئے یا نہیں۔یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔ 24کروڑ کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔ سب نے اپنے اپنے حصے کی سزا کاٹ لی ہے۔ لوٹنے والے لوٹ چکے ہیں۔ 24کروڑ کا مقدر نہیں ہے کہ وہ کبھی سپریم کورٹ کی طرف دیکھ رہے ہوں کبھی ایوان صدر، کبھی وزیر اعظم ہائوس۔ وہ ایک مستحکم، خوشحال، ریاست میں رہنا چاہتے ہیں۔ روز مرہ کیلئے ایک سسٹم کے خواہاں ہیں، حکمران طبقوں، اداروں، اسمبلی ارکان سب کی آزمائش ہے ۔ علما کی، دانشوروں کی۔
فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
واپس کریں