دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہیرامنڈی کی ہسٹری
No image میاں بڈھا کنجروں کارہنمابنااور ساہوکار ہیراچندبناجس نےکنجریوں کی منڈی لگائی،ہیرامنڈی بازارشیخوپوریاں سے ہیرامنڈی چوک وہاں سے نوگزے پیراوروہاں سے کھائی تک کا علاقہ ہے،اس میں کئی روڈ اورگلیاں شامل ہیں جن میں حیدری سٹریٹ،کوچہ سبزپیر، فورٹ روڈ( آج کل فوڈ سٹریٹ ہے)۔
اُچاچیت رام روڈ، نیواں چیت رام اورمین بازارجسے شاہی محلہ کہاجاتاہے۔
ہیرامنڈی میں گانے بجانے والے کمرےکوکوٹھاکہاجاتاجسے چلانےوالی نائکہ کہلاتی،اس کا پکا مراثی یامنشی ہوتا۔
تماش بین گاہک کوججمان کہاجاتا، ججمان کی بھی اقسام ہوتیں، شاہ خرچ کرنیوالےکو لاڑا اور کنجوس کولینجھ کہاجاتا۔
لاڑےکی کوٹھےپر آمدپرنائیکہ اسےسات سلام کرتی جبکہ لینجھ کی آمدپر بیٹھے بیٹھے سلام کا جواب دے دیتی،
نشہ، جوا،اوربدمعاشی جس دلے میں یہ تین عیب نہ ہوتے اسے عزت دار کہاجاتاکہ ایسا دلا گاہک کےپیچھےنہیں جاتابلکہ گاہک خود عزت دار ( دلے ) کے پیچھے آتاہے۔
ہیرامنڈی میں کنجروں کی لڑکی اورمراثی کے لڑکےکی عزت ہوتی کیونکہ یہ دونوں کمائی کا زریعہ ہوتے،کوٹھےکی پہچان بیٹانہیں بیٹی ہوتی،
کسبی گویے خان صاحب اورعطائی گویےکوماسٹرکہاجاتا،
جس کنجرکےگھرلڑکے پیداہوتےرہتےوہ ساہن کو بلاتے، ایساہی ایک ساہن جوپوستی تھاوہ حکیم اللہ دتہ قصوری کی دکان
بیٹھارہتا، یہ ساہن جس کنجرکےگھررات گذاردیتاوہاں لڑکوں کی پیدائش بند ہوجاتی،
ہیرامنڈی کی تاریخ میں دوناموں کابہت زکررہا، بلاقی شاہ اورلال چمریا، جو رئیس زادہ بھی ہیرامنڈی آتاوہ بلاقی شاہ کامقروض ہوجاتا،ہیرامنڈی میں لال چمریاکاانتظاررہتاکیونکہ نتھ اتروائی کیلئےپورےہندوستان میں مشہورتھا،لال چمریا روپوں کابستربچھاتا، نتھ اتارتا،رات گذارتا،صبح نتھ جیب میں ڈالتااورچلاجاتا،کہاجاتاہےکہ اس کےپاس نتھوں سےبھراہواپوراصندوق تھا،
جب تھیٹرکاآغازہواتواس میں کام کرنےوالی لڑکیاں کنجریاں تھیں،ان دنوں کلکتہ اوررنگون( برما) تک ہیرامنڈی سے سپلائی ہوتی تھی، پندرہ بیس ناچنےگانےوالیاں گروپ بناکےفلموں میں کام کےلئےکلکتہ اوررنگون تک جاتیں،موجودہ ٹبی تھانےکےقریب گیتی تھیٹر( ترنم سینما )پر پروموٹرلڑکیوں کےگروپ کواکٹھاکرتا، پنجاب میلُ میں بیٹھ کر گروپ لاہورسے کلکتہ پہنچتا،ان میں نورجہاں،رشیدہ،ممتاز،سرداراختراوربہاراختربھی شامل تھیں۔
رشیدہ فلمسازسیٹھ کرنانی کوپسندآگئی تواس کی رکھیل بن کرپشپارانی کہلانےلگی،
جب کلکتہ میں پنجابی فلمیں پاپولرہونےلگیں توپارسی سیٹھ فلمی یونٹ لیکرلاہورآگئے،لاہورمیں دھڑادھڑپنجابی فلمیں بننےلگیں، بمبئی ٹاکیزکی پہلی بولتی فلم عالم آرا آئی تو ہیرامنڈی سے کنجریاں بمبئی پہنچ گئیں، ان میں ثریاکی نانی گوجرانوالہ کی پری چہرہ نسیم کی ماں شمشادبھی شامل تھی۔
جب ہیرامنڈی نےزورپکڑاتویہ عالم ہوگیاکہ شام ہوتے ہی لوہاری دروازے کےباہر نئے تانگوں کی لائن لگ جاتی جو تماشبیوں کولیکربھاٹی دروازےسےراوی روڈ کےراستے ٹکسالی دروازے جاتے، جب متحدہ پنجاب اسمبلی کااجلاس شروع ہوتا توہیرامنڈی کی رونق بھی بڑھ جاتی، کوٹھوں کوسنواراجاتا،کنجریاں نئےکپڑے پہنتیں، پھولوں والوں کوانعام ملتے، لمبی لمبی کاریں شام کو ہیرامنڈی میں پارک ہوتیں۔
خضرحیات ٹوانہ وزیراعظم پنجاب ہیرامنڈی کاجوائی بنا،ممتازدولتانہ چیف منسٹرپنجاب نےہیرامنڈی کی الماس بائی سے بیاہ کیا۔
ممتازدولتانہ کےجاگیردارباپ نےاپنی بہوکی چھوٹی بہن کواپنےلئےرکھ لیا،
جب پاکستان بناتوہیرامنڈی میں کنجری اوربدمعاش کاجوڑ بنا،ہیرامنڈی میں ہرایک کوپتہ ہوتاکہ کونسابدمعاش کس کنجری کایارہے،بدمعاش کاتانگہ اس کنجری کےکوٹھےکےسامنے کھڑاہوتا۔
ون یونٹ بناتوہیرامنڈی کی رونق اوربڑھی، لاہورکے کالجوں اور پنجاب یونیورسٹی میں بھی مجرے ہوتے۔
1962میں گورنرکالاباغ نےسختی کردی کہ گانابجانا رات دس بجےتک اوردھندابالکل بند،ہرجگہ پولیس چوکیاں بنادیں، ٹبی تھانہ بکنے لگ گیا،
کئی کنجردوسرے علاقوں میں جابسےنیامزنگ،گلبرگ، ماڈل ٹاؤن وغیرہ یحیی اوربھٹوکےدورمیں ہیرامنڈی پرنرمی رہی،لیکن بھٹودورکےتماشبین خاندانی نہ تھے، عیاشی کرکے پیسے نہ دیتے،ایک رات لائلپورکامزدورلیڈرعیاشی کےلئےہیرامنڈی آیااورتھرتھلی مچادی،پولیس نےگرفتارکیاتونشےمیں دھت بولتارہا۔
“لائلپوروں ٹریاانقلاب ٹبی تھانے روک دتاگیا۔”
پھرٹیپ اوروی سی آرکازمانہ آیا،بلیوپرنٹ بننےلگے، دلا پروموٹر دفتر کھول کےبیٹھ گئے،میوزیکل گروپ بنےاوررنڈیاں لندن دبئی سپلائی ہونے لگیں۔
جنرل ضیاکےدورمیں ہیرامنڈی میں کنجریوں پرزوال آیالیکن کھسروں کی موج ہوگئی۔
جب ہیرامنڈی نئی نئی آبادہورہی تھی تویہاں لڑکیاں کشمیر، کابل اور علاقہ غیرسے بیچنے کیلئےلائی جاتیں دھندےکیلئےکنجرٹبی گلی میں کرائےکامکان لیتے، میاں حمیدنےاس کام کےلئے کٹڑی بنائی،اس کی گیارہ گلیاں تھیں، ہرگلی کےدونوں طرف کوٹھی خانہ جوتین منزلہ ہوتا،ہرمنزل پر تین کوٹھڑیاں، ہر کوٹھری کی ایک کھڑکی گلی میں کھلتی اورہرکھڑکی میں ایک رنڈی بیٹھتی، رنڈی لفظ سرکاری رجسٹرمیں چڑھایاجاتا، کیونکہ لائسنس کنواری کونہیں صرف بیوہ یاطلاق یافتہ کوملتاتھا۔میاں حمید کی کٹڑی میں پورے پنجاب سے رنڈیاں دھنداکرنےکےلئےکوٹھڑی کرائےپرلیتیں،گاہک کاریٹ مدتوں آٹھ آنےسے پانچ روپئے رہا۔
جس عورت پرشوہرظلم کرتااورطلاق بھی نہ دیتاتووہ کچہری جانےکی بجائےمیاں حمیدکےپاس آتی، وہ نام رجسٹرپر چڑھاکےاسےرنڈی کی پرچی دےدیتاتوشوہرطلاق دےدیتا،دھندے کےبعد دلے کوٹھریوں کوبندکردیتےکہ کنجریاں کہیں بھاگ نہ جائیں،جورنڈی اپنے دلے کی بات نہ مانتی وہ اسےچاہےکیسے بھی مارتاکوئی نہ بچاتے، ٹبی تھانےکی پولیس کوبھی حکم تھاکہ کسی کنجری کی مدد نہیں کرنی،علاج کیلئےکنجری کوہیرامنڈی سےباہر جانےکیاجازت نہ ہوتی جورنڈی مرجاتی اس کی لاوارث لاش معصوم شاہ کے مزارکےباہررکھ دیتے، خداترس دلے خیرات دیتےجس سے کفن دفن کیاجاتا،بچ جانیوالے پیسےمیاں حمیدرکھ لیتا۔
ٹبی گلی کےحمیدےکی دودھ دہی کی دکان بہت چلتی، فجرسے لیکر آدھی رات تک دودھ کڑاہی میں کڑھ رہاہوتا۔اس کےبارے مشہورتھاکہ یہ لاہورکی سب سے بڑھی دودھ کڑاہی ہے،ٹبی تھانے کی عقبی گلی میں جیب کتری کافن سکھانےکاسکول بھی کھلا، ٹبی گلی کی رنڈیاں ہیرامنڈی سے نہ گذرتیں کیونکہ ہیرامنڈی کے خاندانی کنجران کامذاق اڑاتے،
ہیرامنڈی میں پیسے والےگاہک کو تماشبین،ٹبی کے گاہک کو نکے لوگ،ناچنے گانے کو مجرا،سیکس کو دھندا کوٹھی خانےکی رنڈیوں کو نگ ،مال، دانہ یاپٹولہ کہاجاتا،چل پھرکے گاہک تلاش کرنیوالی کو گشتی جبکہ کوٹھری میں بیٹھے کو چکلہ کہاجاتا۔
کنجر پنجابی زبان کا لفظ کن جر سے بناہے مطلب ہے جس کے کان خوشی سے بدنامی جڑ دے،کندھے پر رومالی ڈالنا دلے کی نشانی بنا، رُمال شاہ لاہور کاپہلادلاتھا۔
جو تماشبین اجڑکے ہیرامنڈی میں مارے مارے پھرتےانھیں بھونڈ کہاجاتا، آج بھی لڑکیوں کوتنگ کرنے کو بھونڈی کرناکہتے ہیں
نوٹ :یہ آرٹیکل نین سکھ کی پنجابی کتاب” دھرتی پنج دریائی “ سے لیاگیاہے، اس کا اردو ترجمہ وتلخیص میں نے کی ہے۔
شہزادناصر۔ نیویارک
واپس کریں