دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کی ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی پر نئی امریکی پابندیاں
No image امریکہ نے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے خلاف اپنی سازشوں کا پھر آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں تعاون کے الزام میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس سمیت چار اداروں پر اضافی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت پاکستان کے کچھ نجی اداوں پر اضافی پابندیاں عائد کی ہیں۔ بیان کے مطابق پاکستان نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس نے ، جو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کا ذمہ دار ہے، پاکستان کے لانگ رینج بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے لئے کچھ مواد کے حصول کے لئے کام کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایسا ہی الزام ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اختر اینڈ سنز پرائیویٹ لمیٹڈ اور اورک سائیڈ انٹرپرائزز پر بھی عائد کیا گیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق متذکرہ چاروں پاکستانی اداروں کے خلاف ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے ایک ماہ قبل پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو آگے بڑھانے کے اقدامات کے الزام میں کارروائی کی جا رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے بجاطور پر اس امریکی اقدام پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اس حوالے سے اپنے جاری کردہ بیان میں پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکہ کی مزید پابندیوں کو متعصبانہ اور دہرے معیار کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس سے خطے میں فوجی عدم توازن بڑھے گا۔ انہوں نے باور کرایا کہ پاکستان کی سٹریٹجک صلاحیت خودمختاری کے دفاع اور جنوبی ایشیاءمیں امن و استحکام کے لئے ہے اور پاکستان کے میزائل پروگرام پر ملک کے 24 کروڑ عوام کا مقدس بھروسہ ہے۔ ہمیں پاکستان کے نجی تجارتی اداروں پر امریکی پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے۔ ماضی میں تجارتی اداروں کی اسی طرح کی فہرستیں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات کی بنیاد پر تیار کی گئیں جبکہ پاکستان ایٹمی عدم پھیلاؤ کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ ایسے دہرے معیارات اور امتیازی اقدامات ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی کوششوں کی ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے اور عالمی امن کوبھی خطرے میں ڈالیں گے۔ پاکستان نے اس پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ماضی میں دوسرے ممالک کو جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے لائسنس کی شرط بھی ختم کر دی گئی جبکہ اب پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر مزید پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق اداروں پر ایگزیکٹو آرڈر 13382 کے تحت اضافی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں ایسے افراد یا اداروں پر لگائی جاتی ہیں جو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی ترسیل کے ذرائع اور ان ہتھیاروں کے حصول، ان کی ملکیت ، ترقی ، منتقلی یا ان کے استعمال میں ملوث ہوں یا اس کے لئے معاونت کریں۔ امریکی دفتر خارجہ کے بقول امریکہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور اس سے منسلک تشویشاک سرگرمیوں کے خلاف اقدامات جاری رکھے گا۔ یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کا ایٹمی قوت سے ہمکنار ہونا امریکہ اور اس کے حواریوں کو شروع دن سے ہی ایک آنکھ نہیں بھا رہا۔ جب 1974ءمیں بھارت کے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے ذریعے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا تو چہ جائیکہ امریکہ بھارت پر ایٹمی دھماکے کی پاداش میں عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کراتا، اس نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہی سازشوں کا آغاز کر دیا اور 1981ءمیں جنرل ضیاءالحق کے دور میں جب پاکستان ایٹمی صلاحیت سے سرفراز ہو چکا تھا، اسرائیل نے امریکی آشیرباد کے تحت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر فضائی حملے کی کوشش کی جو بروقت اطلاع ملنے پر پاک فضائیہ کے چاک و چوبند دستے نے اسرائیلی جہازوں کا رخ موڑ کر ناکام بنائی۔ اسی طرح بھارت نے جب -2 مئی 1998ءکو دوبارہ ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کی سلامتی کو چیلنج کیا تو امریکی زبانیں گنگ رہیں اور بھارت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی مگر جب بھارت کو مسکت جواب دینے کے لئے پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کے بھی ایٹمی طاقت بننے کا اعلان کرنے کا عزم باندھا تو امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایٹمی دھماکہ کرنے سے روکنے کے لئے نواز شریف کو مختلف لالچ اور ترغیبات دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جانے لگیں۔ اس کے باوجود نواز شریف نے پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کی خاطر -28 مئی کو مسلسل تین بار ایٹمی بٹن دبا کر پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کا باضابطہ اعلان کیا تو بھارت اور اسرائیل کی ایٹمی صلاحیتوں پر ان کی جانب اپنی آنکھیں بند رکھنے والے امریکہ نے پاکستان پر اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کرانے میں ذرہ بھر دیر نہ لگائی جو اس کی کھلی منافقت اور دہری پالیسیوں کا ٹھوس ثبوت ہے۔ اسی طرح پوری اقوام عالم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ میں امریکہ ہی سرِفہرست ہے جو اپنے ہی لاگو کئے گئے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدوں کی بھی پاسداری نہیں کرتا اور ایٹمی ہتھیاروں کی فروخت کی منڈی کا سرخیل بنا ہوا ہے۔ اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے لئے ہی امریکہ مختلف ممالک کے مابین جنگ کی سازشیں کرتا اور راستے نکالتا ہے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ممالک کو ایٹمی جنگی ہتھیار فراہم کر کے جنگ کی آگ بھڑکاتا ہے۔ یوکرائن اور روس کے مابین جاری جنگ اور غزہ میں غاصب اسرائیل کی بربریت اس کا تازہ ثبوت ہے کیونکہ ان دونوں جنگی محاذوں پر اسرائیل اور یوکرائن کو مکمل امریکی سرپرستی حاصل ہے اور وہ مظلوم فلسطینیوں اور روس کے خلاف امریکی ساختہ ہتھیار ہی بے دریغ استعمال کر رہے ہیں۔ اسی طرح امریکہ ایک معاہدے کے تحت بھارت کو بھی نہ صرف ایٹمی ہتھیار فراہم کر رہا ہے بلکہ ان ہتھیاروں کی تیاری میں بھی بھارت کی معاونت کر رہا ہے جس سے اس پورے خطے کے امن و سلامتی پر سنگین خطرے کی تلوار مسلسل لٹکی ہوئی ہے۔ پانچ ایٹمی ممالک کا کلب بھی امریکی ساختہ ہی ہے جو ایٹمی پھیلاؤ کی بنیاد پر کسی قسم کی پابندیوں سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر چیں بجبیں ہونا اور اس کے لئے معاونت کرنے والے پاکستان کے چار نجی اداروں کو پابندیوں کی زد میں لانا امریکی دہری پالیسی کا ہی شاہکار ہے کیونکہ اس نے بھارت کے جنگی جنونی توسیع پسندانہ عزائم و اقدامات کی جانب دانستہ طور پر اپنی آنکھیں بند رکھی ہوئی ہیں جو اپنے ایٹمی میزائل پروگرام کو مزید توسیع دینے کے لئے اپنے دفاعی بجٹ کو مسلسل بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ امریکہ خود دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل رہا ہے جو لازمی طور پر ایٹمی جنگ ہو گی اور اس کے باعث اس کرہ ارض پر انسانی اور جنگلی حیات سمیت سب کچھ نیست و نابود ہو جائے گا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام تو سفاک دشمن بھارت کے عزائم کی بنیاد پر خالصتاً اپنے دفاع کے لئے ہے جس میں وہ حق بجانب بھی ہے۔ اس پروگرام کو وسعت دینے میں معاونت کے الزام کے تحت پاکستان کے اداروں کو پابندیوں کی زد لانا امریکی شرپسندی کے سوا کچھ نہیں جس پر پاکستان کی جانب سے بجاطور پر مدلل جواب دیا گیا ہے۔ ایسے امریکی اقدامات بالخصوص مسلم دنیا کے لئے ضرور لمحہ فکریہ ہونے چاہئیں۔
واپس کریں