
فیک نیوز یعنی جعلی خبروں کا دور دورہ ہے۔ سوشل میڈیا اس جنس کی سب سے بڑی منڈی ہے ۔ذمہ دارانہ صحافت جن کے بس کا روگ نہیں وہ اب یوٹیوبر یا وی لاگربن کر اپنا چورن بیچ رہے ہیں۔ خبر کے نام پر بارہ مصالحوں کی چاٹ پیش کی جا رہی ہے۔ یوٹیوب ویڈیو کا عنوان یا شہ سرخی جو کہ سکرین پر دکھائی دیتی ہے اسے تھمب نیل(thumb nail) بھی کہتے ہیں۔ اکثر ویڈیوز کے عنوان یا شہ سرخی جھوٹ اور جعل سازی کی پیداوار ہیں۔ سوشل میڈیائی جعلساز بہت عیاراورعوام کےمزاج شناس ہیں۔ہرسیاسی جماعت کے حامیوں کے رجحانات اور تمنائوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہ اپنی ویڈیو کا ایسا عنوان چنتےہیں کہ پہلی نگاہ ڈالنے والا اس ویڈیو کو کھولنےاوردیکھنے پرمجبور ہو جاتا ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ عنوان کے برعکس ویڈیو کا مواد کچھ اورہی داستان بیان کررہاہوتا ہے ۔سوشل میڈیاپہ جعلی شہ سرخی یا تھمب نیل کے ذریعے غیر معیاری مواد پھیلانےکا چلن عام ہے ۔ظاہر ہےیہ صحافت نہیں بلکہ دھوکہ دہی ہے۔ آپ نے بھی ایسے چونکادینے والےعنوانات اکثر پڑھے ہوں گے کہ بڑی خبرسامنے آگئی!فلاں جماعت کا لیڈر فلاں جیل سے رہا! شرق اوسط کے شہزادے نے پاکستانی وزیراعظم کوفون کردیا!چین سےبڑی خبرآگئی !عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی!پاکستان دیوالیہ ہو گیا!فلاں جیل میں رات گئے فلاں لیڈر سے ملاقات کے لیے اہم سیاسی شخصیات کی آمد! ان جھوٹے عنوانات کی حقیقت پوری ویڈیو دیکھنے کے بعد آشکار ہو جاتی ہے۔
راقم کوچند ہفتوں قبل ایک ایسی ہی جعلی عنوان کے حامل ویڈیو دیکھنے کا تلخ تجربہ ہوا۔ایک ٹی وی چینل کے لوگو کے ساتھ یوٹیوب پر اپلوڈکی گئی ویڈیو کا عنوان تھا ’’سعودی شہزادے نے سابق وزیراعظم کی رہائی کامطالبہ کردیا،فلاں صحافی کاخطاب کے دوران سنسنی خیز انکشاف‘‘سات یا آٹھ منٹ کی ویڈیو ایک مشہور ٹی وی اینکر اور کالم نگار کے اس خطاب پر مبنی تھی جو انہوں نے ایک مرحوم خاتون قانون دان کی برسی کے موقع پر تقریب میں لاہور میں کیا تھا۔ اس خطاب میں دور دور تک کسی سعودی شہزادے کا اور جیل کاٹنے والے سابق وزیراعظم کی رہائی کے مطالبے کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ جعلی عنوان یا شہ سرخی بنانے والوں کے چند ممکنہ مقاصد ہوسکتے ہیں۔ اول، چٹخارے دار شہ سرخی یا عنوان کے ذریعے ناظرین کی تعداد میں اضافہ اور ممکنہ مالی فائدے کا حصول ،دوم کسی سیاسی یا مذہبی گروہ کے ایجنڈے یا پروپیگنڈے کو فروغ دینا۔ سوم،ملک دشمن قوتوں کے مذموم بیانیے کی ترویج کر کے نفرت، تقسیم، بغاوت، انتشار، فرقہ واریت یا تشدد کی فضا پیدا کرکے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچانا۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جعلی شہ سرخی کا رجحان سنجیدہ ذرائع ابلاغ میں بھی سرایت کرتاجارہا ہے۔ پرنٹ میڈیا یعنی روزنامے اور ہفت روزہ جرائد میں سنجیدہ صحافت کی اقدار آج بھی زندہ ہیں۔ تاہم صحافت کے قلعے کی درودیوار میں بھی جعلی شہ سرخی کی دیمک لگنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔
بعض اخبارات کی شہ سرخیاں مصدقہ خبر کے بجائے جعل سازوں اور شعبدہ بازوں کے اشتہارجیسا تاثردینے لگی ہیں۔اخبار کےصفحہ اول پرمایہ نازصحافی اپنے قلم کے جوہر دکھاتے ہیں۔ مقام افسوس ہےکہ اب خبر کی صحت،صداقت اوردرستگی کےبجائے قارئین کو چونکانے پر زیادہ توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔چلبلی سی سرخی والی خبرکااصل متن قاری کو مایوس کر دیتا ہے۔ یہ محاورہ یاد آتا ہے کہ نام بڑے اور درشن چھوٹے۔ شہ سرخی میں مرچ مصالحہ ہی نہیں لگایا جاتا بلکہ اسے مسخ کر کے زمینی حقائق کے برعکس غلط تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔ یہ لائق مذمت عمل صحافت نہیں بلکہ جعلی خبر سازی کا دھندہ بنتا جا رہا ہے ۔ اس کام میں وہ انگریزی اخبارخاص مہارت رکھتا ہےجس کے صفحہ اول پر بابائے قوم کی تصویر بلاناغہ چھاپی جاتی ہے۔ یہ امر تکلیف کا باعث ہےکہ ملک کےسب سے بڑے میڈیا ہائوس ہونے کےدعویدار ادارے کے اردو روزنامے میں بھی یہ روش عام ہوتی جا رہی ہے ۔اس حوالے سے تازہ ترین مشاہدات گزشتہ ہفتے میں ہوئے۔
ایک اہم کورٹ مارشل کا میڈیا پر بہت چرچا ہو رہا ہے ملک کےبڑے روزنامے کے نامی گرامی تحقیقاتی صحافی صفحہ اول پراس حوالےسےسنسنی خیزاورغیر معیاری سرخیوں کے ذریعے پیالی میں طوفان اٹھارہے ہیں۔ اس حوالے سےعسکری ادارے کی جانب سے واضح پریس ریلیز جاری کیاجا چکا ہے۔ صحافتی اقدار کے برعکس نامعلوم ذرائع کی آڑ لےکر چونکا دینے والی سرخیاں لگائی جا رہی ہیں ۔ پوری سٹوری یاخبر پڑھ کر سر پیٹ لینے کو جی کرتا ہے جو بات آئی ایس پی آر بیان کر چکا ہے اسے نامعلوم ذرائع کے ہتھوڑے سے مسخ کر کے یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہےکہ ملزم عائدکئےگئےالزامات کو مسترد کررہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون سا ملزم ہے جو الزامات کو مستردنہیں کرتا ۔ مقدمہ توچلایاہی اس لیےجاتا ہےکہ جو الزامات ملزم رد کر رہا ہےانہیں شفاف تحقیقات کےذریعے ثابت کیاجاسکے ۔متعدد دوستوں نے صف اول کے اخبار میں نامی گرامی صحافی کی کاریگری پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ہم ان دوستوں کی تائید کرتے ہیں۔ اخبار کے مدیران سے گزارش ہے کہ صحافتی معیار بلند کریں ۔ براہ مہربانی صفحہ اول کی شہ سرخی کو عامل بنگالی بابا کا چٹخارے دار اشتہار تو نہ بنائیں!
واپس کریں