دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سینیٹ میں بھاری سود پر قرض لینے کا انکشاف
No image سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں انکشاف ہوا ہے کہ پاکستا ن نے 8 فیصد تک بھاری شرح سود پر قرض لیا جبکہ سب سے زیادہ زرعی قرضے پنجاب کو ملے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف ) اور عالمی کمرشل بینکوں سے حاصل کردہ قرضے کی شرائط پیش کردی گئی ہیں۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ آئی ایم ایف سے تقریباً 5 فیصد شرح سود پر 7 ارب ڈالر قرض حاصل کیا گیا جس میں 3.37 فیصد ایس ڈی آر ریٹ، 1 فیصد مارجن اور 50 بیسز پوائنٹس سروس چارجز شامل ہیں جبکہ آئی ایم ایف کو قرضہ گریس پیریڈ سمیت 10 سال کی مدت میں قابل واپسی ہوگا اور آئی ایم ایف کو ششماہی بنیاد پر 12 اقساط میں یہ قرض واپس کیا جائے گا۔ اجلاس میں چینی بینکوں سمیت دیگر اداروں سے 7 سے 8 فیصد سود پر قرض لینے کا انکشاف ہوا جن میں چائنا ڈیویلپمنٹ بینک، انڈسٹریل کمرشل بینک آف چائنا اور سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک شامل ہیں۔ ای سی او ٹریڈ اینڈ ڈیویلپمنٹ بینک اور مشترکہ لون فیسیلٹی بھی حاصل کی گئی۔
اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے مہنگے بیرونی کمرشل قرضے لینے کا تاثر رد کیا اور کہا کہ اب ہم تب قرض لیں گے جب ضرورت ہوگی، کمرشل بینکوں سے کوئی بھی قرض ہم اپنی شرائط پرلیں گے،بیرونی فنانسنگ کا گیپ پورا کرلیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے انٹرنیشنل کیپٹل مارکیٹ سے جلد رجوع کرنے کا بھی عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ رواں مالی سال پانڈا بانڈ کے اجراءکا پلان ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ کلائمیٹ فنانسنگ پربھی بات چیت جاری ہے، اس مقصد کے لیے منصوبوں کی نشاندہی کرنا ہوگی۔ اجلاس میں زرعی ترقیاتی بینک کے صدر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سب سے زیادہ زرعی قرضے پنجاب میں 124 ارب روپے کے دیے گئے جبکہ سب سے کم آزاد کشمیر کو 60 کروڑ روپے دیے گئے۔زرعی ترقیاتی بینک کے فراہم کردہ قرضے 200 ارب ہیں جس میں شرح سود شامل ہے۔ بینک کی طرف سے خیبرپختونخوا میں 5.3 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے گئے، سندھ میں 23ارب، بلوچستان میں 2.7 ارب اور گلگت بلتستان میں 2.6 ارب روپے کے زرعی قرضے فراہم کیے گئے۔
ادھر، ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں بجلی کے تقسیم نظام کو جدید بنانے کے لیے 20 کروڑ ڈالرز قرض کی منظوری دیدی ہے۔ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قرض سے ڈسکوز کی قابلِ بھروسا بجلی فراہمی یقینی بنائی جا سکے گی۔ امداد سے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو)، ملتان الیکٹرک پاور کمپنی (میپکو) اور سکھر الیکٹرک پاور کمپنی (سیپکو) کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری لائی جائے گی۔ بینک پاکستان کی بڑھتی ہوئی بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے مدد فراہم کرے گا۔امداد سے بجلی کی تقسیم کا نظام جدید بنایا جائے گا اور نقصانات کو کم کیا جائے گا، بجلی کے نقصانات میں کمی سے شعبے کے مجموعی نقصانات میں خاصی کمی ہو گی۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ گرڈ سے قابلِ بھروسا بجلی کی فراہمی سے کاروبار کو بڑی سہولت حاصل ہو گی، بجلی کے ترسیلی نقصانات کم کرنے اور انفرا اسٹرکچر بہتر بنانے میں مدد ملے گی، منصوبے کے تحت 3 لاکھ 32 ہزار ایڈوانس میٹر لگائے جائیں گے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ منصوبے سے ڈسکوز کو اصل وقت میں بجلی کے استعمال اور گرڈ کی کارکردگی کا ڈیٹا میسر ہو گا۔ منصوبے سے تینوں ڈسکوز کی آنلائن ٹرانسفارمر مانیٹرنگ کی جا سکے گی۔ قرض کے تحت سیپکو کے چار 66 کلو واٹ کے گرڈ اسٹیشنز کو 132 کلو واٹ پر منتقل کیا جائے گا، لیسکو میں 25 گرڈ سٹیشنز کو جدید بنایا جائے گا، تقسیم کا نظام اپ گریڈ کرنے سے نقصانات میں کمی اور بل کی وصولی میں اضافہ ہو گا۔
یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ پاکستان قرضوں کی بیساکھیوں پر چلنے والا ملک بن کر رہ گیا ہے اور اس کے لیے وہ تمام سیاسی جماعتیں ذمہ دار ہیں جنھیں اس ملک پر حکمرانی کا موقع ملا۔ ہر جماعت نے اپنے دورِ حکومت میں آئی ایم ایف سمیت بیرونی اداروں سے بھی قرضے لیے اور دوست ممالک سے بھی کبھی امداد کے نام پر رقوم حاصل کی گئیں تو کبھی قرض لیے گئے۔ آئی ایم ایف سے پاکستان نے پہلی بار 1958ءمیں قرضہ لیا تھا اور اب ساڑھے چھے دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی ہم اسی ادارے کے در پر کشکول لے کر کھڑے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران کشکول توڑنے کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ کشکول توڑنا نہیں چاہتے کیونکہ ایسا کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ ان کی طرف نہیں آرہے اور نہ ہی آنے کی کوئی خواہش رکھتے ہیں۔
اشرافیہ اور بیوروکریسی کا وجود اس ملک کے عذاب بنا ہوا ہے اور یہ مل کر اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہر سیاسی جماعت کی اعلیٰ قیادت اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے اور بیوروکریسی کو ساتھ ملا کر یہ لوگ تمام سیاہ سفید کرتے ہیں، لہٰذا ملی بھگت سے یہ لوگ ایک دوسرے کو فائدہ بھی پہنچا رہے ہیں اور ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ بھی کر رہے ہیں۔ انھیں نہ تو عام آدمی سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی انھیں پتا ہے کہ اس ملک کا عام آدمی کس حال میں جی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی اداروں اور دوست ممالک سے جو قرضے لیے جاتے ہیں ان کے بارے میں عوام کو کچھ نہیں بتایا جاتا ہے کہ حاصل کیا گیا قرضہ کہاں لگایا گیا ہے، یہ واپس کب اور کیسے ہوگا، اور آئندہ قرض سے بچنے کے لیے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟ جب تک اس سلسلے میں کوئی واضح پالیسی اختیار کر کے سیاست قیادت کو احتساب کے عمل سے نہیں گزارا جاتا تب تک ملک اپنے پاو¿ ں پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔

واپس کریں