دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
قومی حکومت کا قیام: ایک عملی و مستحکم حل ۔چوہدری فواد حسین
No image پاکستان اس وقت ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں سیاسی، معاشی، اور سماجی چیلنجز نے ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سیاسی تقسیم، معاشی بحران، اور ریاستی اداروں کے درمیان اعتماد کے فقدان نے حالات کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس تناظر میں قومی حکومت کے قیام کا فارمولا ایک ایسا راستہ فراہم کرتا ہے جو ان مسائل کو حل کر سکتا ہے اور ملک کو استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ملک کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں درج ذیل سیاسی اور معاشی پہلوؤں پر غور کرنا ہوگا۔سیاسی بحران:اسٹیبلشمنٹ، نون لیگ، اور پیپلز پارٹی کے اتحاد نے عمران خان کے سیاسی اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن عوام میں ان کی مقبولیت برقرار ہے۔دوسری طرف، تحریک انصاف ریاستی جبر اور پابندیوں کے باوجود کسی عسکری تصادم کی راہ پر نہیں جا رہی، جو ایک مثبت پہلو ہے۔حکومت، خاص طور پر شہباز شریف اور آصف زرداری کی قیادت میں، سیاسی طور پر کمزور وکٹ پر کھڑی ہے اور اسٹیبلشمنٹ اس سیٹ اپ کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، لیکن یہ سوال باقی ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے۔معاشی بحران:آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط، عالمی معاشی دباؤ اور داخلی عدم استحکام نے معیشت کو بحران کی حالت میں ڈال دیا ہے۔ملک کی بین الاقوامی حیثیت کمزور ہو رہی ہےاور پاکستان مغربی اور عرب بلاک دونوں میں غیر متعلقہ ہوتا جا رہا ہے۔
قومی حکومت: موجودہ بحران کا حل
موجودہ حالات میں فوری انتخابات ایک جمہوری حل ہو سکتا ہے، لیکن موجودہ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان شدید عدم اعتماد کی وجہ سے یہ حل قابل عمل نظر نہیں آتا۔ ایسے میں قومی حکومت کا قیام ایک درمیانی اور متفقہ حل کے طور پر سامنے آتا ہے۔میں نے فیصل آباد میں قومی حکومت کے لیے فارمولا پیش کیا، موجودہ حالات میں قومی حکومت کا قیام ہی نہایت موزوں معلوم ہوتا ہے۔
قومی حکومت کے قیام کا طریقہ
عمران خان اور تمام سیاسی قیدیوں کو فی الفور رہا کیا جائے اور ملک میں جاری جبر و استبداد کو فوری روکا جائے۔آصف زرداری، نواز شریف اور عمران خان سے دو دو نام لیے جائیں۔ایک غیر جانبدار اور قابل قبول شخصیت پر اتفاق کیا جائے۔اگر ان تینوں شخصیات کا اتفاق نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ کا فل کورٹ نئے وزیر اعظم کے نام کا انتخاب کر لے ۔ پارلیمان سے ایک سال کی عبوری حکومت کا مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔عبوری حکومت کے اختیارات:عبوری حکومت کا بنیادی مقصد انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو۔آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پر اتفاق رائے پیدا کرنا۔الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ترامیم کرنا۔صوبائی حکومتوں کا کردار:عبوری حکومت کے دوران صوبائی حکومتیں برقرار رہیں، تاکہ تمام جماعتیں اپنے ایجنڈے کو جاری رکھ سکیں اور ایک مثبت مسابقت کا ماحول پیدا ہو۔انتخابات کی منصوبہ بندی:عبوری حکومت اپنے قیام کے نویں ماہ میں الیکشن شیڈول کا اعلان کرے۔بارہویں ماہ میں اقتدار انتخابات جیتنے والی جماعت کے حوالے کر دیا جائے۔
قومی حکومت کے ممکنہ فوائد
چونکہ حکومت اتفاق رائے سے قائم ہو گی اس کے نتیجے میں سیاسی استحکام آئے گا اور قومی حکومت تمام جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لائے گی، اس سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے گی جو موجودہ سیاسی انتشار کو ختم کرنے میں مددگار ہوگا۔معاشی بحالی:تمام جماعتوں کے تعاون سے معاشی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا ہوگا، جو معیشت کو استحکام کی طرف لے جائے گا۔عوام کا اعتماد:غیر جانبدار عبوری حکومت عوام کا اعتماد بحال کرے گی، جو جمہوری عمل کے لیے ضروری ہے۔اداروں کی آزادی:الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا مستقبل میں شفاف انتخابات اور انصاف کے لیے راہ ہموار کرے گا۔
چیلنجز اور ممکنہ حل
قومی حکومت کے قیام کے ساتھ چند چیلنجز بھی جڑے ہیں، جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
سیاسی جماعتوں کا عدم اعتماد:تمام جماعتوں کو یہ باور کرانا ضروری ہوگا کہ یہ فارمولا ان کے مفادات کے خلاف نہیں بلکہ قومی مفاد میں ہے۔ اتفاق رائے کا فقدان:تمام فریقین کو قومی حکومت کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔عملدرآمد کی مشکلات:ایک غیر جانبدار شخصیت کا انتخاب اور عبوری حکومت کے مینڈیٹ پر عملدرآمد کے لیے ایک مضبوط نظام کی ضرورت ہوگی۔اسٹیبلشمنٹ کا تعاون ہی ایسے سیٹ اپ کو کامیاب کر سکتا ہے، لہذا ظاہر ہے ایسے کسی بھی فارمولے پر عمل کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا تعاون اور منظوری درکار ہو گی۔
نتیجہ
پاکستان اس وقت جس سیاسی، معاشی، اور سماجی بحران کا شکار ہے، اس سے نکلنے کے لیے قومی حکومت کا قیام ایک قابل عمل اور ضروری قدم ہے۔ یہ فارمولا نہ صرف ملک کو استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے بلکہ جمہوریت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں بھی مددگار ہوگا۔ قومی حکومت کے ذریعے انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا ہوگااور عوام کا اعتماد بحال ہوگا، جو پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہے۔
واپس کریں