دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی عدم استحکام کی معاشی قیمت ۔ چوہدری سلامت علی
No image اسلام آباد میں ہونیوالے حالیہ احتجاج اور اسے روکنے کیلئے حکومتی اقدامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ملک کا معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ اس احتجاج کے دوران تقریباََ چار سے پانچ روز تک وفاقی دارالحکومت، موٹرویز اور ہائی ویز مکمل طور پر جبکہ صوبہ پنجاب جزوی طور پر بند رہا جس کی وجہ سے ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کو شدید دھچکا لگا اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا۔ اس حوالے سے حکومت کے اپنے اعدادو شمار کے مطابق ملک کو یومیہ اندازہََ 190 ارب روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس حوالے سے تیار کی گئی حکومتی رپورٹ کے مطابق معاشی سرگرمیوں میں تعطل کے باعث جی ڈی پی میں یومیہ 144ارب روپے کی کمی ہوئی جبکہ برآمدات میں کمی کے باعث 16 ارب روپے اور دیگر معاشی سرگرمیوں کی بندش کے باعث محصولات کی وصولیوں میں 26ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اس طرح زرعی شعبے کو یومیہ 26 ارب روپے، صنعتوں کو 20ارب روپے اور خدمات کے شعبے کو 66 ارب روپے کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ علاوہ ازیں غیر ملکی سرمایہ کاری کی کم آمد کی وجہ سے مزید 3ارب روپے یومیہ نقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ان اعدادوشمار میں ابھی وہ اخراجات شامل نہیں ہیں جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو بڑی تعداد میں اسلام آباد منتقل کرنے یا احتجاج کو روکنے کے لئے استعمال ہونے والے حکومتی وسائل پر خرچ ہوئے ہیں۔ اسی طرح موٹر ویز اور ہائی ویز پر ٹریفک کی آمدو رفت نہ ہونے کے باعث ٹول ٹیکس کی مد میں ہونے والا مالی نقصان بھی اس تخمینے میں شامل نہیں ہے جبکہ شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا جانی و مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے تیار کی گئی رپورٹ میں اس حقیقت کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ سیاسی بدامنی سے معیشت متاثر ہو رہی ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام جا رہا ہے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم ہے اور یہاں سرمایہ کاری خطرے سے خالی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح کی صورتحال کے باعث شہریوں کو آمد ورفت کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک رسائی، انٹرنیٹ و ٹیلی کمیونکیشن سہولیات کی دستیابی یا کسی خوشی، غمی کی تقریب میں شرکت میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں بند ہونے سے نہ صرف صنعتوں میں پیداواری عمل متاثر ہوتا ہے بلکہ کسانوں کو اپنی اجناس منڈی تک پہنچانے اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کو بھی روزگار کے حوالے سے بدترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالیہ احتجاج کے دوران جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ برآمدات کا شعبہ تھا۔ بالخصوص ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو برآمدی آرڈرز کی ترسیل کے حوالے سے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ برآمدی مال کی ترسیل کے لئے استعمال ہونے والے کنٹینرز کی بڑی تعداد راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے ضبط کر لی گئی تھی اور کئی ایسے کنٹینرز بھی سڑکوں پر پڑے رہے جن میں برآمدی مال لدا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بہت سے مل مالکان نے برآمدی مال سے لدے ہوئے کنٹینر اپنی ملوں میں روک لئے تاکہ احتجاج کے دوران ہونے والی توڑ پھوڑ یا لوٹ مار سے ہونے والی ممکنہ پریشانی اور نقصان سے بچا جا سکے۔ تاہم اس سارے عرصے کے دوران انہیں نہ صرف برآمدی آرڈرز کی ترسیل میں ہونے والی تاخیر کے باعث مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ کنٹینرز کی بکنگ کے اضافی اخراجات بھی برداشت کرنے پڑے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی زیادہ تر ٹیکسٹائل برآمدات امریکہ اور یورپ کے ممالک کو برآمد کی جاتی ہیں اور اس وقت وہاں کرسمس سیزن کے باعث تجارتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ایسے میں جب بیرون ملک موجود گاہکوں کو یہ بتایا گیا ہو گا کہ پاکستان میں غیر یقینی صورتحال کے باعث ان کے برآمدی آرڈرز کی ترسیل غیر معینہ مدت کے لئے تاخیر کا شکار ہو گئی ہے تو ان پر کیا گزری ہو گی۔ کیا اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنے کے بعد وہ اپنے کسی اہم تہوار یا معاشی سرگرمی کے حوالے سے مستقبل میں پاکستان کو برآمدی آرڈرز دینا پسند کریں گے۔ کیا اس طرح کے اقدامات کرکے ہم خود ہی اپنی برآمدات بڑھانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں زیادہ ہونے اور شرح سود میں نمایاں کمی نہ ہونے کی وجہ سے پیداواری لاگت پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور برآمد کنندگان کو عالمی منڈی میں حریف ممالک سے مسابقت میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ ایسے میں ہر احتجاج کے موقع پر راستوں کی بندش اور برآمدی مال کی ترسیل کے لئے استعمال ہونے والے کنٹینرز کی پکڑ دھکڑ کی روایت سے معاملات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سپلائی چین میں رکاوٹ براہ راست اقتصادی ترقی کو متاثر کرتی ہے اور سپلائی چین میں خلل سے صنعتی پیداوار کا عمل تعطل کا شکار ہونے کے نتیجے میں برآمدات کا ہدف پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ حالات اس لئے بھی زیادہ تشویشناک ہیں کہ ہمیں اس وقت برآمدات بڑھانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملک کو درپیش زرمبادلہ کی قلت کا خاتمہ کیا جا سکے لیکن ہماری سیاسی جماعتوں اور حکومت کی پالیسیاں اس کے بالکل برعکس نظر آتی ہیں۔ یہاں اپوزیشن کو بھی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کا ایجنڈا یا مفادات پاکستان کے قومی مفاد سے بالاتر نہیں اور اگر انہوں نے اپنے مسائل کا سیاسی حل نہ نکالا اور سیاسی عدم استحکام کا یہ سلسلہ جاری رہا تو انہیں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ کاروباری حلقوں کی طرف سے بھی ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واپس کریں