جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007 میں طالبان نے اس علاقے سے پاک فوج کے خلاف کارروائیاں شروع کر دیں‘ فوج وہاں تعینات تھی لیکن اسے گولی چلانے کا اختیار نہیں تھا‘ مقامی لوگ براہ راست فوجی جوانوں کو تنگ نہیں کرتے تھے لیکن پھر 2007 میں جنڈولہ کے ایک سردار کا دماغ خراب ہو گیا اور اس نے پاک آرمی کی چیک پوسٹ پر میزائلوں سے حملہ کر دیا‘ حملے میں اٹھارہ جوان شہید ہو گئے جب کہ ایک کیپٹن شدید زخمی ہو گیا‘ اس وقت وہاں 35 ایف ایف یونٹ تعینات تھی‘ میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں فوج میں یونٹ فیملی سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔
اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ جوانوں اور افسروں کی زندگی کا اہم ترین اور طویل ترین وقت یونٹ میں گزرتا ہے لہٰذا ان کا بانڈفیملی سے زیادہ تگڑا ہوتا ہے‘ دوسرا یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایکسرسائز کرتے ہیں‘ جنگیں لڑتے ہیں‘ زخمی اور لاشیں اٹھاتے ہیں لہٰذا یہ ایک دوسرے سے جذباتی اٹیچ ہو جاتے ہیں‘ آپ خود اندازہ کیجیے اگر چھ سات سو لوگ اکٹھے رہتے ہوں اور انھوں نے مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہو تو ان کے درمیان رشتہ کتنا مضبوط ہو گا‘ 35 ایف ایف کے جوانوں اور افسروں کا رشتہ بھی بہت مضبوط تھا لہٰذا یونٹ نے جب جنڈولہ سے اٹھارہ لاشیں اٹھائیں تو ان کا خون کھول اٹھا‘ فوج میں مخالفین کو اس وقت تک برداشت کیا جاتا ہے جب تک لاش نہیںگرتی اگر کسی نے آپ پر باقاعدہ حملہ کر دیا اور آپ کی کوئی لاش گر گئی ہو تو پھر فوج کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔
جنڈولہ میں بھی یہی ہوا‘ یونٹ کی برداشت جواب دے گئی اور اس نے اپنی قیادت کو اطلاع کر دی‘ سویلین آبادی کو گاؤں خالی کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کے بعد جنڈولہ کے مضافات کے پورے گاؤں سے شرپسندوں کا صفایا کر دیا گیا۔ یونٹ نے اس کے بعد زخمی کیپٹن کو راولپنڈی سے بلایا‘ اسے چیک پوسٹ پر کھڑا کیا اور کہا ’’ سر دیکھیں آپ پر حملہ کرنے والے کہاں ہیں؟ ‘‘وہاں واقعی کچھ نہیں تھا۔ہم اگر اس مثال کو 26 نومبر 2024 کے اسلام آباد کے آپریشن کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ہم تصور کر سکتے ہیں پی ٹی آئی کے ساتھ اس رات کیا ہوا ہو گا؟
پی ٹی آئی کی پیدائش اسٹیبلشمنٹ کی کوکھ سے ہوئی تھی‘ یہ جماعت بنائی ہی ریٹائرڈ فوجی افسروں نے تھی‘ عمران خان کی باقاعدہ پرورش کی گئی‘ ان کی امیج بلڈنگ ہوئی‘ 2011 میں جنرل پاشا نے اس کی فنڈنگ کرائی‘ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے خوش حال منیجر پارٹی میں شامل کرائے گئے اور پھر جماعت کو ملک کی سب سے تگڑی سیاسی پارٹی بنا دیا گیا‘ جنرل باجوہ اور چیف جسٹس ثاقب نثار اسے 2018 میں اقتدار میں لے کر آئے اور جنرل فیض حمید پارٹی اور اقتدار دونوں چلاتے رہے‘ پارٹی کی حالت یہ تھی 2020میں ایف بی آر کے چیئرمین جاوید غنی تھے۔
وہ وزیراعظم کو بریفنگ دینے گئے تو وزیراعظم نے چند منٹ سننے کے بعد انھیں حکم دیا آپ آبپارہ جائیں اور جنرل فیض حمید کو بریفنگ دیں اور اس کے بعد چیئرمین ایف بی آر ہر جمعہ کی نماز کے بعد آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر جاتے تھے اور جنرل فیض حمید کو ٹیکس کولیکشن کی بریفنگ دیتے تھے‘ ایف بی آر کے ممبرز‘ ڈی جی اور بعض اوقات کلیکٹرز تک کا فیصلہ جنرل فیض حمید کرتے تھے‘ یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر عمران خان نے سعودی عرب جیسے ان ملکوں کو ناراض کر دیا جن کے بغیر پاکستان اپنی معیشت نہیں چلا سکتا‘ دوسرا یہ فوج کے سسٹم کے اندر گھس گئے اور انھوں نے جنرل فیض حمید کو پوری فوج کے سامنے کھڑا کر دیا‘ فوج پنجاب اور کے پی میں عثمان بزدار اور محمود خان جیسے نمونوں سے بھی تنگ تھی۔
وفاق میں بھی روزانہ کی بنیاد پر سرکس جاری تھی چناں چہ فوج پیچھے ہٹ گئی اور عمران خان کی حکومت گر گئی لیکن اس وقت بھی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کی اکثریت تھی اور پنجاب‘ کے پی‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں اس کی حکومت تھی‘ بانی کو چاہیے تھا یہ صبر کرتے اور فوج کو حد سے زیادہ بے عزت کرنے کی کوشش نہ کرتے تو دو تین ماہ بعد یہ دوبارہ وزیراعظم ہوتے لیکن انھوں نے بدقسمتی سے ایک ایسی جنگ چھیڑ لی جس کا نقصان کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں تھا‘ یہ جنرل باجوہ کو میر صادق اور میر جعفر کہتے رہے‘ یہ انھیں نیوٹرل اور جانور بھی کہتے رہے۔
فوج یہ بھی برداشت کرتی رہی‘ اس کی وجہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن تھی‘ ایکسٹینشن کے بعد جنرل باجوہ کی ’’مورل اتھارٹی‘‘ ختم ہو گئی تھی اور فوج انھیں دل سے پسند نہیں کرتی تھی چناں چہ بانی نے جب جنرل باجوہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا تو فوج برداشت کرتی رہی لیکن خان نے اسے فوج کی کم زوری سمجھ لیااور یہ آگ کی شدت بڑھاتا چلا گیا‘ خان نے نئے چیف کی تقرری کو بھی متنازع بنا دیا‘ یہ اس کی دوسری بڑی غلطی تھی لیکن اصل غلطی 9مئی 2023کا دن تھا‘ پی ٹی آئی کے ورکرز نے اس دن براہ راست فوجی تنصیبات پر حملہ کر دیا اور یہ وہ غلطی تھی جس کے بعد معاملات ’’پوائنٹ آف نو ریٹرن‘‘ پر پہنچ گئے اور بانی مکمل طو رپر فوج کی حمایت کھو بیٹھے اور پارٹی ’’انتشاری ٹولہ‘‘ بھی بن گئی لیکن اس کے باوجود خان کو جیل میں کوئی تکلیف نہیں دی گئی۔
پی ٹی آئی بار بار احتجاج بھی کرتی رہی‘ 8 فروری کے الیکشن کے بعد بھی پارٹی نے پانچ احتجاج کیے بلکہ پانچ بار وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کی اور فوج اسے بھی برداشت کرتی رہی‘ 24 نومبر کا احتجاج بھی پچھلے احتجاجوں کی طرح جیسے تیسے گزر جانا تھا لیکن پھر وہ واقعہ ہو گیا جس کے بعد برداشت ختم ہو گئی‘25 اور 26نومبرکی درمیانی شب پونے تین بجے سیاہ رنگ کی ایک گاڑی نے 3 رینجرز کو کچل کر شہید کر دیا‘ یہ سیدھا سادا اعلان جنگ تھا اور اس کے بعد وہی ہوا جو 2007میں جنڈولہ میں ہوا تھا‘ بلیوایریا کی تمام لائیٹس بند کی گئیں اور 10 منٹ بعد پورا میدان خالی تھا۔
تمام غیرت مند اپنی لیڈرشپ سمیت غائب تھے‘ اب سوال یہ ہے کیا 26 نومبر کی رات اسلام آباد میں فائرنگ ہوئی تھی‘ اس کا جواب ناں اور ہاں دونوں ہیں‘ لوگوں نے اس رات فائرنگ کی آواز سنی تھی لیکن آپریشن کے بعد کسی عمارت پر فائر کا نشان تھا اور نہ گراؤنڈ پر زخمی اور لاشیں تھیں‘ اگلا سوال یہ ہے اگر فائرنگ ہوئی تو پھر اس کے نشان اور نقصانات کہاں گئے؟ اس کا جواب ہے فوج (رینجرز) کے پاس دو قسم کی گولیاں ہوتی ہیں‘ ایک پریکٹس بلٹس(یہ ڈمی راؤنڈز بھی کہلاتی ہیں) ہوتی ہیں اور دوسری اصلی گولیاں‘ ڈمی بلٹس بھی عام گولیوں کی طرح ہوتی ہیں۔
ان میں بارود بھی ہوتا ہے لیکن سکہ نہیں ہوتا چناں چہ جب یہ چلائی جاتی ہیں توان کی آواز گولی کی ہوتی ہے لیکن مشین گن یا رائفل سے سکہ نہیں نکلتا لہٰذا نقصان نہیں ہوتا‘ غالب امکان ہے اس رات رینجرز نے خوف پھیلانے اور ہجوم کو بھگانے کے لیے مشین گن کے ذریعے ڈمی بلٹس چلائی ہوں‘ قبائلی لوگ گولی کی آواز سے واقف ہوتے ہیں‘ ان کی آنکھ ہی گولیوں کی آواز میں کھلتی ہے لہٰذا یہ صرف آواز سے اندازہ کر لیتے ہیں اس وقت پستول چل رہا ہے‘ رائفل یا پھر مشین گن چناں چہ انھوں نے مشین گن کی آواز سنی ہو اور دوڑ لگا دی ہو‘ دوسرا امکان پی ٹی آئی کے مظاہرین کے ساتھ مسلح لوگ بھی اسلام آباد آئے تھے لہٰذا یہ عین ممکن ہے آپریشن کے دوران مسلح افراد نے گولی چلا دی ہو لیکن بہرحال یہ درست ہے آپریشن ہوا اور اس کے نتیجے میں فائنل کال فوت ہو گئی اور اب پارٹی اور قائد دونوں زندگی کے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا عمران خان کی ضد نے ایک ایسی جنگ چھیڑ دی ہے جس کا اختتام عمران خان کے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا‘ کیوں؟کیوں کہ دوسری طرف کوئی شخص نہیں ہے‘ پورا ادارہ ہے اور لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ادارے قائم رہتے ہیں‘ آپ ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال لے لیجیے‘ یہ 2017میں پہلی بار صدر بنے اور انھوں نے اداروں سے جنگیں چھیڑ لیں۔
اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ ڈونلڈ ٹرمپ چلا گیا مگر ادارے قائم رہے‘ یہ اس بار دوبارہ پوری طاقت کے ساتھ آ رہے ہیں اور انھوں نے پورے امریکا سے چن چن کر خوف ناک اور متنازع ترین لوگوں کی کابینہ بنادی‘ امریکا کی تاریخ میں پہلی بار بھارتی نژاد امریکی کاش پٹیل ایف بی آئی کا سربراہ بن رہا ہے‘ یہ نئی جنگ کا آغاز ہے لیکن آپ دیکھ لیجیے گا ڈونلڈ ٹرمپ یہ جنگ لڑتے لڑتے ختم ہو جائے گا مگر ادارے چلتے رہیں گے‘ پی ٹی آئی بھی اس جنگ کا شکار بن کر جلد یا بدیر غائب ہو جائے گی لیکن ادارے قائم رہیں گے لہٰذا اس جنگ کا نتیجہ عمران خان کے خلاف نکلے گا‘ میں بار بار عرض کرتا آ رہا ہوں‘ یہ ملک فوج کے بغیر بچ نہیں سکتا اور جمہوریت کے بغیر چل نہیں سکتا لیکن بانی فوج کو شکست دے کر ملک چلانا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے اور بانی کی اس سوچ نے ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا‘ میں دل سے سمجھتا ہوں اگر عمران خان کے سارے جرائم معاف کر دیے جائیں تو بھی اس کی تین غلطیاں ناقابل معافی ہیں۔
اس کی سیاسی حماقتوں کی وجہ سے دونوں پرانی سیاسی جماعتیں اور ان کی مسترد شدہ قیادت دوبارہ ہمارے سروں پر نازل ہو گئی‘ آج اگر ن لیگ‘ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اقتدار میں ہیں تو اس کا سارا کریڈٹ بانی کو جاتا ہے‘ دوسرا خان نے پورے ملک کو نفرت کی آگ میں جلا دیا‘ لوگ اب ایک دوسرے کے گلے پڑتے ہیں اور یہ لڑائی خاندانوں میں چلی گئی ہے اور اس کا تیسرا ناقابل معافی جرم غیر جانب دار میڈیا کا قتل ہے‘صحافیوں کے پاس اب دو آپشن ہیں‘ یہ خان کا ساتھ دیں یا اسٹیبلشمنٹ کا اور اس مجبوری نے پورے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا‘ صحافت ختم ہو گئی اور یہ وہ غلطی ہے جسے تاریخ بھی معاف نہیں کرے گی ۔
واپس کریں