دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
گوئبلز ایوارڈ کے حقدار
No image تحریر، عامر حسینی۔نواب صادق قریشی ، شاہ محمود قریشی کے چچا 70ء اور 71ء میں ملتان ڈویژن میں پی پی پی کے مخالف سیاست دانوں میں سب سے زیادہ دشمنی کی حد تک جانے والے سیاست دان ثابت ہوئے - انھوں نے 70ء کے الیکشن کمپئن میں اپنے زیر اثر حلقہ انتخاب میں پی پی پی کی الیکشن کمپئن کو رکوانے کے لیے مقامی پولیس، مقامی غنڈے، مقامی مولوی اور مقامی بااثر زمیندار، مہاجر اور لوکل برادریوں کے چودھری سب کو استعمال کیا-نومبر 1970ء میں نواب صادق قریشی نے ملتان کے قریب قادرپوررواں میں زوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں انتخابی قافلے پر فائرنگ کروائی، بھٹو صاحب جس جیپ پر سوار تھے اسکے ٹائر پنکچر ہوئے - نواب صادق دیکھتے ہی دیکھتے پیپلزپارٹی میں شامل غریب کسان، کھیت مزدوروں، کئی ایک متوسط طبقے کے کسانوں، ریڑھی بانوں، خوانچہ فروشوں، غریب رعایا میں انتہائی نفرت کا نشان بن گئے تھے - پیپلزپارٹی ضلع ملتان سے مقامی، ضلعی، ڈویژنل اور صوبائی سطح کی ساری قیادت نواب صادق قریشی کے خلاف تھی - نواب صادق قریشی 1972ء کی پنجاب اسمبلی کے رکن تھے - جب زوالفقار مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے تو اسی دوران بیک ڈور چینل سے نواب صادق حسین قریشی کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کی خبریں لیک ہونا شروع ہوگئیں - پیپلزپارٹی کے ورکرز میں ان خبروں سے بڑی بے چینی پھیلی ہوئی تھی - پیپلزپارٹی میں 72ء کے دوران پنجاب سے پی پی پی زمیندار اشرافیہ کی شمولیت کا باقاعدہ پروسس شروع ہوا اور اس پراسس میں مدد پنجاب سے پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب ہونے والے بڑی اور درمیانی زرعی ملکیت رکھنے والوں نے شروع کی اور یہ عمل 1974ء میں پنجاب میں کافی حد تک پورا ہوگیااور اکثر درمیانے اور بڑے درجے کے زمیندار اشرافیہ کے سیاست دان پی پی پی میں شامل ہوگئے تھے - ہر بڑے ماضی کے پی پی پی دشمن زمیندار سیاست دان کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے وقت عام کارکنوں کو کہا جاتا کہ یہ چار آنے کے رکن رہیں گے اس سے آگے کچھ نہیں - نواب صادق حسین کی پارٹی میں شمولیت کے موقع پر بھی یہی کہا گیا تھا کہ وہ چار آنے کے ممبر رہیں گے - لیکن نواب صادق حسین قریشی نے قائد عوام زوالفقار علی بھٹو پر نجانے کیا جادو کیا وہ اُن کے محل "وائٹ ہاؤس پیلس" کے ہی ہوکر رہ گئے تھے - یہیں پر جنرل ضیاء سے ان کی پہلی ملاقاتیں ہوئیں اور یہیں انھیں ضیاء الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف بنانے کے لیے رام کیا گیا تھا- یہیں فیصلہ ہوا کہ نواب صادق حسین قریشی کو چیف منسٹر پنجاب بنایا جائے اور یہیں انھیں گورنر پنجاب بنائے جانے کا فیصلہ ہوا تھا - نواب صادق حسین قریشی کی پارٹی اور پارٹی کی حکومت میں آمد نے دھیرے دھیرے اُن کے خلاف مزاحمت اور مخالفت کو خاموش ہوجانے پر مجبور کیا اور جو خاموش نہ ہوئے انھیں کھڈے لائن لگنا پڑا -
1986ء اور پجارو گروپ
سن 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات اور غیر جماعتی اسمبلی کے بعد پی پی پی میں شہید بی بی پر زور دیا گیا کہ وہ پنجاب سے غیر جماعتی ممبران اسمبلی کی پارٹی میں شمولیت کا راستا نکالیں اس بارے میں بی بی شہید پہلے متذبذب تھیں بعد ازاں انھوں نے گو اہیڈ دے دیا - ایک بار پھر پنجاب میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے شانہ بشانہ کھڑے زمیندار اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد نے پی پی پی میں شمولیت کو غنمیت جانا - ان میں پنجاب کے چند وہ بڑے سیاسی زمیندار خانوادے بھی تھے جنھیں جنرل ضیاء سے شکوہ تھا کہ انھوں نے پاور کے کھیل میں شہری تاجر اور صنعتکار برادریوں کے نمائندوں کو اُن پر بااختیار بنادیا ہے - یوسف رضا گیلانی بھی اسی سبب پی پی پی سے رابطے میں آئے تھے کیونکہ ملتان کی سیاست میں جنرل ضیاء اور جیلانی وغیرہ نے گیلانی گروپ کی بجائے قریشی گروپ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا -
پی پی پی پنجاب کے کارکن جن کی قیادت شیخ رشید اور ان کے تیار کیے ہوئے پنجاب بھر کے اضلاع میں پھیلے جیالے سیاسی کارکن کررہے تھے انھوں نے پی پی پی کے دشمن اور ضیاء کے ساتھ مل کر پارٹی کارکنوں پر ظلم ڈھانے والوں کی پارٹی میں شمولیت کے خلاف ایک تحریک چلائی جس کا نعرہ تھا "ضیاء بھی مارے، تم بھی مارو-ہائے پجارو، ہائے پجارو"..... یہ تحریک خود اس وقت کی پنجاب کی صوبائی قیادت اور ان کے بنائے مقامی عہدے داروں نے ناکام بنادی جن میں جہانگیر بدر کا تو قصور تھا ہی خود شیخ رفیق احمد اور رانا شوکت کا بھی بہت قصور تھا انہوں نے اپنے عہدے بچانے کے لیے ورکرز کی تحریک کو قربان کردیا -
انیس سو اٹھاسی میں پنجاب میں ہیوی ویٹس اور سابقہ ضیاء الحق دور کے پی پی پی دشمن زمیندار اور نو دولتیوں نے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرلی - رانا شوکت، جہانگیر بدر، فخر زمان یہ تین پنجاب کے صدور کے زمانے تک پارٹی کی تنظیموں کے ضلعی اور تحصیل عہدے تھے تو ورکرز کلاس کے کارکنوں کے پاس لیکن یہ سب موقعہ پرستی کی گنگا میں اشنان کرچکے تھے - پھر 1993ء میں پہلی دفعہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈرو اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کے حلقوں کے پارٹی صدور و جنرل سیکرٹری بنائے گئے اور بعد ازاں ان میں سے اکثر پارٹی کے ضلعی صدور بنے یا پھر ان کا وفادار ہی ان عہدوں کے قابل ٹھہرا - پنجاب میں اس پالیسی نے تنظیموں کا رہا سہا اثر بھی ختم کردیا - راؤ سکندر اور قاسم ضیاء کے دور میں تنظیمیں فوٹو سیشن تک محدود تھیں اور تب سے لیکر اب تک وہی بوسیدہ تنظیمی ڈھانچہ پنجاب میں چل رہا ہے - اب تو پارٹی صوبائی قیادت کے کسی ایک فیصلے سے اختلاف کا مطلب بلاسفیمی ہے - خیر
اُس زمانے میں شاہ محمود کے والد نواب سجاد محمود گورنر پنجاب تھے اور شاہ محمود قریشی ضلع کونسل ملتان کے رکن تھے - انھوں 88ء اور 90ء کے صوبائی اسمبلی کے الیکشن اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر لڑے اور اس دوران شاہ محمود قریشی بے نظیر بھٹو کے خلاف بازاری و گھٹیا زبان انتخابی جلسوں میں کیا کرتے تھے - لیکن 1993ء میں میاں نواز شریف نے اُن کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ بھی دینے سے انکار کر ڈالا - شاہ محمود اُس وقت ایک سیاسی یتیم کی حثیت رکھتے تھے اور ان کی پی پی پی میں شمولیت کی راہ سید یوسف رضا گیلانی (جی ہاں تمام تر حریفانہ کشاکش کے باوجود) نے کی - شاہ محمود قریشی کو پی پی پی نے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں الیکشن لڑوایا وہ جیت گئے - شاہ محمود قریشی اور اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی نے دونوں نے پہلے ملتان ڈویژن کی تنظیموں اور پھر بتدریج پورے جنوبی پنجاب کی تنظیموں میں یونین کونسل سطح پر اپنے وفادار لاکر بٹھائے - چند درجن پرانے کارکنوں نے پارٹی میں اپنی شناخت کا اُن کو فائدہ پہنچایا انہوں نے اپنے حالات بدلے اور گیلانی، قریشی اور کئی ایک نے صلاح الدین ڈوگر سے وفاداری کا حلف اٹھایا ویسے تو یہ کہانی ہر ضلع میں وڈے تے اثر جاگیردار یا سرمایہ دار سیاست دان کی ہے کہ اسنے پی پی پی کے تین سے چار درجن منجھے ہوئے سیاسی کارکنوں کو گود لیا ان کے حالات بدلے اور یوں ان حلقوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی -
شاہ محمود قریشی نے جب پی پی پی چھوڑی تو اس کے ساتھ پی پی پی میں اس کی وفادار ایسے جیالوں کی ٹیم چلی گئی جو ضیاء الحق اور نواز شریف کے جبر سے بھاگی نہیں تھی - یہی عامر ڈوگر کے چھوڑ جانے سے ہوا - یہی افتخار نذیر کے جانے کے وقت ہوا -
اب بہت سارے جیالے قریشی کی پارٹی میں دوبارہ شمولیت کی خبر پر چیں بہ چیں ہورہے ہیں - اگر پارٹی کی ہائی کمان نے فیصلہ کرلیا، گیلانی و مخدوم احمد محمود نے رضامندی ظاہر کردی تو پھر قریشی نہ صرف پارٹی میں آئے گا بلکہ اس کے زاتی وفاداریوں کو اپنے قومی و صوبائی حلقوں اور تنظیمی عہدوں پر سیٹ کرے گا، اقتدار ملا تو زاتی وفاداروں کو نوکری، ٹھیکے اور مراعات بھی ملیں گی-
پیپلزپارٹی کے کارکن کلاس کی بھاری اکثریت کا المیہ یہ ہے کہ وہ اس وقت پی پی پی پی کی اسٹبلشمنٹ سے جڑے کسی ناکہ کسی طاقتور کا چاہے وہ چھوٹا یا بڑا کا سہارا لیے ہوئے ہے چاہے اس سے اُس کا کچھ بنے نہ بنے پھوں پھاں تو بنی رہتی ہے - ورکر کلاس پارٹی کے اندر ایک دوسرے سے جڑ کر پارٹی میں لیفٹ اپوزیشن کی تعمیر سے گریزاں ہے - اُس کی رہنمائی کرنے کے قابل جتنے قابل درمیانے طبقے کے سیاست دان تھے وہ سب موقعہ پرستی کی گھاٹ اتر چکے - کراچی میں تاج حیدر، نجمی عالم، مسرور احسن نظریاتی رہنمائی سے بھی قاصر ہیں کیونکہ اس صورت میں پارٹی کی اسٹبلشمنٹ سے الگ کردیے جائیں گے - نسبتا جوان رہنما جیسے سعید غنی، عاجز ڈھامرا ہے وہ بھی لیفٹ اپوزیشن کا سوچ بھی نہیں سکتے - پنجاب میں جنوبی پنجاب میں ٹوچی خان جیسے اب کل کے ایک نواب لونڈے کی دولت کے سہارے اپنا الیکشن بچانے کے چکر میں ہیں - ملتان میں حبیب اللہ شاکر جنھوں نے قومی محاز آزادی یہ کہہ کر چھوڑی تھی کہ پی پی پی کے ساتھ عوام کھڑے ہیں ہم وہاں جاکر جاگیرداروں و سرمایہ داروں کو پیچھے دھکیل کر مزدور، کسان، طلباء کی سیاست آگے لائیں گے وہ بھی اب زیادہ سے زیادہ پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک پرت کا تحفظ کرنے کی سیاست تک محدود ہیں -
میں تو اب تک یہ جانتا ہوں کہ ماضی میں ورکر کلاس سیاست کا کوئی اہم نام اگر پیپلزپارٹی میں تنظیمی اسٹبلشمنٹ اور پارلیمانی سیاست میں موجود ہے تو اس کی وجہ ورکر کلاس سیاست سے دست برداری ، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے سمجھوتے اور ان کی بالادستی کو چیلنج کرنے سے توبہ.....
پارٹی میں جو نیا خون وارد ہوا ہے اس میں بھی موقعہ پرستی اور چھلانگ لگانے کا کلچر غالب ہے - پارٹی میں اب سوشلزم کی آواز کوئی نہیں، عوامی جمہوری انقلاب کا کوئی دعوے دار نہیں - سب ریفرنس ڈھونڈ رہے ہیں جس کے توسط سے پارٹی کی قیادت اُن پر دست شفقت رکھے اور وہ اپنی حالت بدل ڈالیں _
اس وقت پاکستان می‍ں ورکنگ کلاس کی ورکر سیاست کا سب سے بڑا فقدان اور خلا ہے -
کارکن اس بات پر ایمان کھو بیٹھے ہیں کہ چندہ اکٹھا کرکے بھی سیاست کی جاسکتی ہے - یہ اعتماد اور ایمان ایک منظم طریقے سے اٹھایا گیا ہے -
پارٹی کی حکومت سرکاری وسائل سے اور اُن وسائل کے بڑے حصے سے فیض یاب ہونے والے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور نودولتیوں کی بخشش سے کتنے ورکرز کے گھرانے سیٹ کرسکتی ہے؟ مزدور اور کسان طبقات کو تو مجموعی طور پر رہنے دیجیے اور جبکہ پارٹی کی حکومت اصلاح پسند سوشلزم یا سوشل ڈیموکریسی سے بھی کوسوں دور ہو اور نیولبرل معشیت کے خیراتی اصولوں کو گلوریفائی کرکے پیش کررہی ہو جو منشور میں شامل سوشلزم ہماری معشیت ہے کا الٹ ہو اور وہ پارلیمان میں ایک فیصد بھی مزدور، کسان، طالب علم نمائندے نہ بھیج رہی ہو اور وزرات زراعت، وزرات صحت، وزرات بلدیات، وزرات خزانہ کسی ورکنگ کلاس کے نمائندے کو سونپنے پر غور نہ کرے اور پھر کہا جائے "طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں" ان زمینی حقائق پر غور کرنے کے بعد بھی اگر پی پی پی کے سرگرم کارکن کسی وڈ وڈیرے کے ساتھ نتھی رہیں اور نمائشی طور پر ورکرز کلاس کے رہنما ہونے کے دعوے دار بھی ہوں تو انھیں اس منافقت پر گوئبلز ایوارڈ سے نوازا جائے اور ہر سال یہ ایوارڈ کم از کم ملک کے پی پی پی کے دس ایسے سیاست دانوں کو دیں جو سوشل ڈیموکریٹ ہونے اور عوامی ہونے کے دعوے دار ہوں..... سب سے پہلے دو ایوارڈ تو جنوبی پنجاب میں عبدالقادر شاہیں، خواجہ رضوان عالم کو دیں، تیسرا ایوارڈ حیدر زمان قریشی کو دیں - سنٹرل پنجاب میں پہلا ایوارڈ قمر زمان کائرہ، دوسرا چوہدری منظور احمد کو دیں اس کے بعد تو لائن لگی پڑی ہے برکی، چن، فیصل میر اور نجانے کون کون اس ایوارڈ کا حقدارٹھہرےگا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
واپس کریں