افغان باشندوں کی پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت ۔ دفتر خارجہ کی وارننگ
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے خبردار کیا ہے کہ افغانیوں سمیت تمام غیرملکی باشندے پاکستان کے سیاسی معاملات سے دور رہیں‘ غیرملکی باشندوں کی پاکستان میں سیاسی جلسوں میں شرکت غیرقانونی ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں انہوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے اسلام آباد کے احتجاج سے افغان شہریوں کو گرفتار کیا ہے‘ جن کی تفصیلات وزارت داخلہ جاری کریگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے مابین کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہو رہے۔ انہوں نے اس امر کی بھی وضاحت کی کہ پاکستان اور چین کا کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے انگیج منٹ سے متعلق کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ بیلاروس کے صدر نے وزیراعظم پاکستان کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کیا جس میں دوطرفہ تعلقات پر بات چیت ہوئی اور متعدد معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی ہوئے۔ انہوں نے بتایا کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اس وقت روس کے سرکاری دورے پر ہیں‘ جہاں وہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور پارلیمانی تعاون کو مضبوط بنانے کیلئے ایم او یوز پر دستخط بھی کئے جائیں گے۔ انکے بقول نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار 2 دسمبر کو ایران کے دو روزہ دورے پر جائیں گے جہاں وہ وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شریک ہونگے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ہفتے مقبوضہ کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں بھارتی فوج کے کیمپ میں چار شہریوں کو دوران حراست بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان اس واقعہ کے ذمہ داروں کو قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
بے شک اقوام متحدہ کے چارٹر میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے مابین بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے واضح طور پر طے کیا گیا ہے کہ ہر رکن ملک ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کی پاسداری کریگا اور کوئی رکن ملک کسی دوسرے رکن ملک کے اندرونی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کریگا جبکہ کسی دوطرفہ تنازعے کے حل کیلئے ایک دوسرے پر لشکر کشی سے بھی گریز کیا جائیگا اور اقوام متحدہ کے فورم پر ہی علاقائی اور عالمی تنازعات کے علاوہ دو یا زیادہ ممالک کے باہمی تنازعات کا حل نکالا جائیگا۔ اس تناظر میں دوسرے ممالک کیلئے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا احترام بھی واجب ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں بھارت اور افغانستان کی شکل میں دو ایسے پڑوسی ملک ملے ہیں جنہیں پاکستان کے ساتھ شروع دن سے ہی خدا واسطے کا بیر ہے۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی بھی سب سے پہلے افغانستان نے مخالفت کی تھی جبکہ بھارت نے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی روشنی میں پاکستان کا قیام تو بادل نخواستہ قبول کرلیا مگر اسکی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں شروع دن سے ہی مگن ہو گیا۔ اسکی پاکستان کے ساتھ مخاصمت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور کابل انتظامیہ بھی پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی بھارتی سازشوں میں شامل ہو چکی ہے۔
ہمارے لئے اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال اور کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی افغانستان میں امن عمل کی کاوشوں کے نتیجہ میں ہی امریکی نیٹو افواج کی افغانستان سے واپسی ممکن ہوئی اور افغان طالبان کو دوبارہ کابل کے اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ اس تناظر میں ہمیں توقع تھی کہ ماضی کے برعکس اب پاکستان کو افغانستان کی جانب سے تازہ ہوا کا جھونکا ملے گا مگر اسکے برعکس کابل کی عبوری طالبان حکومت کی جانب سے پاک افغان سرحد پر افغان باشندوں کے پاکستان میں غیرقانونی داخلے کی راہ ہموار کی جانے لگی جنہوں نے سرحد پر لگی باڑ اکھاڑ کر پاکستانی پرچم بھی پائوں تلے روندے اور پاکستان کی سلامتی کو بھی رعونت کے ساتھ چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ طالبان حکومت کی اس پالیسی سے ہی بھارت کو پاکستان کے اندر اپنا سازشی نیٹ ورک پھیلانے کا مزید موقع ملا جس کے دہشت گرد افغان سرزمین پر تربیت حاصل کرکے وہاں سے پاکستان میں داخل ہونے لگے چنانچہ 2021ء سے اب تک پاکستان میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں‘ ان میں سے 95 فیصد وارداتیں افغانستان سے پاکستان داخل ہونے والے دہشت گردوں کے ذریعے ہی ہوئیں جبکہ کابل کی طالبان انتظامیہ نے اس حوالے سے پاکستان کے باضابطہ طور پر ریکارڈ کرائے گئے کسی احتجاج کی بھی پرواہ نہیں کی۔
چونکہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث تحریک طالبان کے لوگوں کی پذیرائی ہونے لگی اور طالبان حکومت کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت پاکستانی جیلوں میں مقید طالبان دہشت گردوں کی رہائی بھی عمل میں آنے لگی اور پھر ان دہشت گردوں کو پاکستان کی ایک جیل توڑ کر بھی فرار ہونے کا آسان موقع مل گیا اس لئے بادی النظر میں انکے ساتھ پاکستان کی اس وقت کی حکومت کا نرم رویہ ہی پاکستان میں دہشت گردی کیلئے ان کے حوصلے مزید بلند کرنے کا باعث بنا جبکہ عمران خان کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں میں بھی افغان باشندوں کی شمولیت نوٹ کی جانے لگی۔ پی ٹی آئی کی اس تحریک کے دوران افغان باشندے اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ موجود پائے گئے جنہوں نے پہلی بار زمان پارک میں پولیس پر پٹرول بم بھی برسائے۔
یہ حقائق تو باقاعدہ ریکارڈ پر موجود ہیں کہ پی ٹی آئی کے مظاہرے کے دوران افغان باشندے عمران خان کی اقامت گاہ زمان پارک سے بھی گرفتار ہوئے جبکہ 9 مئی کے واقعات میں بھی متعدد افغان باشندے ملوث پائے گئے جن کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور انکے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے۔ اب عمران خان کی 24 نومبر کی فائنل کال کی بنیاد پر پشاور سے وزیراعلیٰ خیبر پی کے اور بشریٰ بیگم کی قیادت میں اسلام آباد کیلئے روانہ ہونے والے جلوس میں بھی مبینہ طور پر افغان باشندے شامل ہو گئے جو میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلح تھے اور راستے میں وہ پولیس کی طرف سے چلائی جانے والی آنسو گیس کا توڑ کرتے ہوئے پولیس کی جانب جوابی شیل پھینکتے رہے جبکہ ڈی چوک اسلام آباد میں جمع ہونے والے پی ٹی آئی کے کارکنوں میں افغان باشندے بھی شامل تھے جن کی نشاندہی ہونے پر انکی گرفتاری عمل میں آئی۔ ان کا یہ اقدام بلاشبہ عالمی قوانین کے علاوہ پاکستان کے قوانین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے اور اگر اسی طرح پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کو پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات میں مداخلت کی کھلی چھوٹ ملتی رہی تو پاکستان اور افغانستان کے مابین بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہو سکتا ہے جو پورے خطے کے امن و امان کی بربادی پر منتج ہوگا کیونکہ بھارت پہلے ہی پاکستان کی سلامتی پر شب خون مارنے کیلئے گھات لگائے بیٹھا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے لوگ چونکہ پاکستانی شہری ہیں‘ اس لئے حکومت کو انہیں راہ راست پر لانے کیلئے انکے ساتھ ڈائیلاگ کا دروازہ کھلا رکھنا چاہیے۔ اگر انکی پاکستان دشمنی پر مبنی کارروائیاں جاری رہتی ہیں تو پھر انہیں قانون کے شکنجے کس کر انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہوگا۔ بہرحال دہشت گردوں کی پاکستان کے کسی سیاسی عمل میں شمولیت کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتی چاہے یہ پاکستان کے شہری ہوں یا کسی اور ملک کے۔ پاکستان کے قوانین اور اسکی آزادی و خودمختاری کا احترام بہرصورت سب پر لازم ہے۔
واپس کریں