حکومت نے بانی پی ٹی آئی کو مستقبل قریب میں ممکنہ ریلیف سے متعلق کچھ یقین دہانیاں کرائیں لیکن بانی پی ٹی آئی نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔دی نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق ایک وفاقی وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی سے کہا گیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ باضابطہ بات چیت کیلئے رضامندی کا اعلان کرے اور 24 نومبر کو احتجاج کی کال واپس لے۔
امر واقع یہ ہے کہ ایک جانب حکومتی وزراء عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو”فتنہ“ قرار دیتے ہیں تو دوسری جانب خان کے پاوں پڑتے ہیں۔فارن فنڈنگ کیس اور سائفر جیسے تشویش ناک مقدمات سے لے کر اور توشہ خانہ اور 190 ملین پاونڈ ز کے کیسوں تک درجنوں مقدمات میں ایک ایک کر کے عمران خان کی ضمانتیں ہو رہی ہیں، اڈیالہ جیل میں سے ہو کر آرٹیکل شائع ہو رہے ہیں،جیل میں پارٹی وفود سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں،اشٹبلشمنٹ کے پیغامات دیئے جا رہے ہیں اوراخباری نمائندوں سے انٹرویوز ہو رہے ہیں جبکہ از خود خان صاحب شروع دن سے جیل میں بیٹھ کر ہر سہولت سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔
عمران خان سے متعلق اگر فوجی ترجمان، حکومتی وزراء اور وزیرِ اعظم کے بیانات سنیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اگلی صبح ہی خان صاحب پھانسی کے پھندے پر لٹکنے والے ہیں لیکن عالم یہ ہے خان صاحب کے رویئے میں رتی بھر بھی فرق نہیں آیا۔ان کی زوجہ،بہنیں اور پارٹی عہدیدار حکومت کے بجائے مسلسل اشٹبلشمنٹ کو ہی ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
اس ساری صورتِ حال میں دو ہی باتیں سمجھ آنے والی ہیں ایک تو یہ کہ عمران خان واقعی لیڈر بن چکے ہیں اور دوسری بات یہ کہ عمران خان اور اشٹبلشمنٹ نورا کشتی کھیل رہے ہیں جس کا واحد مقصد پی ٹی آئی کو فعال یا زندہ رکھنا ہے جسے بنانے اور کھڑا کرنے کے لیئے بھاری سرمایہ کاری کے ساتھ مشہورِ زمانہ”دو سالہ محنت“ کی گئی تھی اور اس محنت کا مقصد پی پی پی اور مسلم لیگ نواز کو نکیل ڈالنا تھا۔24 نومبر کو اگر پی ٹی آئی کچھ کر گزرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر یہ ماننا بے جا نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کو بحال رکھنے کا مقصد پی پی پی اور ن لیگ کو دباو میں رکھ کر من مانے فیصلے کروانا ہے۔خاکسار پہلے بھی عرض کر چکا ہے کہ اشٹبلشمنٹ ہمیشہ چاروں اطراف کھیلتی ہے اور اسی باعث اس وقت اور ہر دور میں سامنے اور پسِ پردہ اس ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہے۔
واپس کریں