ابتدا میں راولپنڈی ڈنگی کھوئی اور پرانہ قلعہ تک محدود تھا۔ مگر جب سکھ آۓ تو کوچۂ صابونیاں، بھابھڑا بازار، کسیرا بازار وغیرہ آبادیاں بسائی گئیں۔ان کے ساتھ ہی محلہ امام باڑہ، محلہ شاہ نذر دیوان اور باغ سرداراں آباد ہوۓ۔ باغ سرداراں سکھ سردار سوہن سنگھ نے تعمیر کرایا۔ اسکے ساتھ ایک گوردوارہ اور ایک بڑی لائبریری بھی تھی۔ یہ سب سے پرانی لائبریری سردار سجان سنگھ کی تھی۔نہرو روڈ پر قائم اس لائبریری سے راولپنڈی کے اہل علم اپنی پیاس بجھاتے تھے۔نایاب کتابوں کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ بے شمار مخطوطہ جات بھی موجود تھے۔ تقسیم ہند کے موقع پر فسادات میں اسے جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔اور یہ راولپنڈی کے ماتھے پر ایک بدنما دھبہ تھا۔
سکھوں ہی کے عہد میں مہاراجہ کشمیر نے راجہ بازار میں مکانات اور سرائیں تعمیر کرائیں۔اس لئے یہ علاقہ راجہ بازار کے نام سے موسوم ہوا۔ اسی طرح کی ایک سراۓ میں آجکل مولانا غلام اللہ خان کی مسجد ہے۔
ڈنگی کھوئی کے قریب ایک کھلا میدان تھا۔ جہاں بانس فروخت کرنے کی منڈی تھی۔ اس منڈی کے باعث بازار کا نام بانساں والا بازار مشہور ہو گیا۔ موچی بازار اور قصائی گلی بھی سکھ عہد میں بنیں۔قصائی گلی کے دونوں کونوں پر(راجہ بازار کی جانب) چھوٹے گوشت کی دکانیں تھیں۔جس کی وجہ سے یہ قصائی گلی کہلائی۔ سکھ دور میں بڑے گوشت پر پنجاب میں پابندی تھی۔ جب انگریزوں کے قبضے کے بعد پنجاب میں بڑے جانور کے ذبیحہ کی اجازت ملی تو پنجاب بھر میں بڑے گوشت کے قصائی نہ ہونے کی وجہ سے انگریزوں نے میرٹھ سے قریش برادری کو لا کر یہاں آباد کیا۔
مہاراجہ کشمیر راجہ ہری سنگھ نے راولپنڈی کا پہلا سنیما گھر بھی بنوایا۔ جسکا نام اُس کے بزرگ اور ریاست کے پہلے ڈوگرہ مہاراجہ گلاب سنگھ کے نام پر “ روز “ رکھا گیا۔ اسکے بعد مزید تین سنیما نیو روز، امپیریل اور نگار تعمیر ہوۓ۔
چوہدری وارث خان کے آبا و اجداد اسی جگہ آباد تھے جہاں آج کل چوہدری مولا داد چوہان کے مکان ہیں۔انہی کے نام سے محلہ چوہدری وارث خان آباد ہوا۔ اس خاندان کے لوگ سالوں تک راولپنڈی میونسپل بورڈ( بعد میں میونسپل کمیٹی) میں چھاۓ رہے۔اور اسکے ممبر منتخب ہوتے رہے۔اسی زمانے میں ایک ہندو مائی ویرو نے عوامی بھلائی کے لئے پختہ تالاب بنوایا۔ تو محلہ بنی وجود میں آیا۔ یہ تالاب نہایت خوبصورت تھا اس کی گہرائی اٹھارہ فٹ تھی۔ چاروں طرف سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں۔ تقسیم کے بعد جب یہ تالاب متروک ہوا تو اہل محلہ اس کو بند کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ برسات کے موسم میں اسکے پانی میں اکا دکا بچوں کے ڈوبنے کے واقعات کے وجہ سے اسے مٹی سے بھر دیا گیا اور یہاں دکانیں بنا کر راجہ بازار کے ریڑھی بانوں کو دے دی گئیں۔ جنہوں نے انہیں فروخت کر دیا یا کرایہ پر اٹھا دیا۔ اور خود پھر سے راجہ بازار میں ریڑھیاں لگانے لگے۔سکھوں کے دور میں راولپنڈی کا شہر انہی محلوں پر مشتمل تھا۔
انگریزی عہد میں چھچھ کے علاقے کے لوگ یہاں آ کر آباد ہونا شروع ہوئے تو چھاچھی محلہ کا اضافہ ہو گیا۔ یہیں سردار عالم خان روڈ پر ہندوستانی فلمی اداکار بلراج ساہنی کا گھر آج بھی موجود ہے۔ اپنی آپ بیتی ( میری فلمی آتما کتھا) میں انہوں نے چھاچھی محلہ کے آباد ہونے کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انکے گھر کے سامنے مری روڈ تک کھیت ہی کھیت تھے۔
انگریزی عہد میں ہی چوہدری مکھا سنگھ نے سٹی صدر روڈ پر مکانات تعمیر کراۓ۔ وہ ناچ گانے اور قوالیوں کے شوقین تھے۔ بر صغیر کے بڑے بڑے فنکاروں اور طوائفوں نے یہاں انکی محفلوں میں شرکت کی۔ انکے یہاں ہر وقت لنگر خانہ کھلا رہتا تھا اور کسی بھی قسم کی مذہبی تفریق نہیں تھی۔ سردار مکھا سنگھ محرم کی مجالس اور مہندی، عاشورہ کے جلوس میں نہایت عقیدت و احترام سے شریک ہوتے تھے۔مہندی کی تمام رات جلوس کے ساتھ گذارتے۔ شہر کے امام باڑہ میں دسویں محرم کو ہمیشہ انکی طرف سے دیگیں پکائی جاتیں۔
شاہ چن چراغ بڑے اولیاء اللہ تھے۔ شیر شاہ سوری کے عہد میں ادھر آ کر آباد ہوۓ۔ آپ کا مزار مرجع خلائق تھا اور انگریز دور میں راولپنڈی کے مشہور تین میلوں میں بری امام کا میلہ اور شاہ چن چراغ کا میلہ مشہور تھے۔ تیسرا میلہ ہندوؤں کا سید پور گاؤں میں لگتا تھا۔ بر صغیر کی مشہور طوائفیں بلکہ تمام طوائفیں بری امام جانے سے پہلے یہاں شاہ چن چراغ کے مزار پر حاضری دیا کرتی تھیں۔جسے “چوکی بھرنا “ کہتے تھے۔
مسلمانوں کے قدیم قبرستان پیر ودہائی ، عیدگاہ اور شاہ دیاں ٹالیاں تھے۔
اسی دور میں قصائی گلی پُررونق ہوئی اور یہاں اہل نشاط نے ڈیرے جماۓ۔ شادی بیاہ میں انکی بہت طلب ہوتی تھی کیونکہ شادی بیاہ کی تقریبات کم از کم ایک ایک ماہ تک چلتی تھیں۔انگریزی دور میں لاہور کی ہیرا منڈی اور راولپنڈی کی قصائی گلی بہت مشہور ہوئیں۔
جنگ عظیم اول اور دوم کے درمیانی عرصہ میں راولپنڈی کی آبادی میں خاصا اضافہ ہوا۔اور دیکھتے ہی دیکھتے راولپنڈی کے گردونواح میں چھوٹی چھوٹی آبادیاں جنہیں ڈھوک کہتے تھے( ڈھوک چند گھروں پر مشتمل آبادی ہوا کرتی تھی) شہر کا حصہ بن گئیں۔ جن میں ڈھوک کھبہ، ڈھوک الٰہی بخش، ڈھوک رتہ، ڈھوک چراغ دین، ڈھوک فرمان علی،ڈھوک پیراں فقیراں وغیرہ شامل تھیں۔ان کے ساتھ ساتھ رتہ امرال، چاہ سلطان، امر پورہ، فیروز پورہ، ارجن نگر، محلہ راجہ سلطان، بھٹہ نیک عالم،محلہ عید گاہ، نیا محلہ، کمیٹی محلہ، محلہ قطب الدین، موہن پورہ، کوہاٹی بازار، انگد پورہ، آنند پورہ، کرتار پورہ وغیرہ کی بستیاں بس گئیں۔ جس شہر کی آبادی پچاس ہزار تھی بڑھ کر ڈیڑھ لاکھ ہو گئی۔
نالہ لئی شہر اور چھاؤنی کے درمیان حد فاصل تھا۔ صدر کی آبادی بھوسہ منڈی، کوئلہ سنٹر، میسی گیٹ، ہاتھی چوک ، احاطہ مٹھو خان، احاطہ فضل الٰہی اور آر اے بازار تک محدود تھی۔ بعد میں ٹینچ بھاٹہ، آدڑہ،مغل آباد، جھنڈا چیچی، گوالمنڈی،لال کڑتی،مریڑ حسن، چوہڑ،ڈھیری حسن آباد،تلسہ، بکرا منڈی اور ویسٹریج وجود میں آۓ۔ ڈینیز سکول کے پاس ایک کوٹھی کے علاوہ کوئی آبادی نہ تھی۔چھاؤنی کو آباد اور با رونق کرنے کے لئے اسٹیشن کمانڈر نے لوگوں میں مفت زمین تقسیم کی۔ جسکا زیادہ تر فائدہ سکھ، ہندو،بوہروں اور کچھ شیخ برادری نے اٹھایا۔ اور کافی رقبہ پر قبضہ کر لیا۔سیٹھ مامون جی ، سیٹھ آدم جی اور فضل الٰہی نے بھی کافی زمین حاصل کی۔
ڈھیری حسن آباد کی جگہ جنگل ہوا کرتا تھا۔ اور اس جگہ کنٹونمنٹ کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ کوئی شخص خوف کے مارے سر شام اس طرف نہیں جاتا تھا۔ شیخ حسن محمد رئیس گجرات 1896 میں راولپنڈی آۓ اور انہوں نے انڈین آرمی میں گوشت سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا اور بڑا نام پیدا کیا۔ انہوں نے ہی ڈھیری والی جگہ میں اپنے نام پر حسن آباد کی بستی تعمیر کرائی۔
راولپنڈی چھاؤنی کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے. انگریزوں کی آمد اور راولپنڈی کو ناردرن کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر بنانے سے قبل یہاں پر کُھو کھمہ کے نام سے ایک ڈھوک ہوتی تھی جس کے قریب اینٹوں کے بھٹے ہوتے تھے. اینٹوں کے لیے مٹی کی کھدائی کے نتیجے میں گہری کھائیاں بن گئی تھیں جن کو جی ایچ کیو میں تعینات انگریز Trenches of Bhattas کہا کرتے تھے. ٹینچ بھاٹہ اسی کی بگڑی ہوئی شکل ہے.
واپس کریں