پاکستان میں کان کنوں کی نمائندہ تنظیم کے مرکزی رہنما شوکت مومند کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں سے ہزارہا مزدور عدم تحفط کے باعث کام چھوڑ کر ديگر مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔”بلوچستان کی مائننگ انڈسٹری پہلے ہی بحرانی کیفیت سے دوچار تھی لیکن شورش کی وجہ سے صورت حال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ اب اکثر علاقوں میں کوئلے کی کانوں کی حدود میں لوگ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران کوئٹہ، دکی، ہرنائی، بولان، لورالائی اور دیگر علاقوں سے ہزاروں مزدور عدم تحفظ کے باعث کام چھوڑ چکے ہیں۔‘‘
مومند کا کہنا تھا کہ کوئلہ کانوں میں سکيورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات سے نمٹنے کے لیے حکومتی سطح پر جو اقدامات کیے گئے ہیں انہیں کسی بھی طور پر تسلی بخش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے بقول، ”یہاں جن علاقوں میں مائننگ کا کام ہو رہا ہے، وہاں ایس او پیز کو حکومتی سطح پر بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ مائننگ کے شعبے کی سکیورٹی کے لیے جو دعوے سامنے آتے ہیں ان پر عمل درآمد ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ صوبے میں مائن ورکرز کو مسلسل اغواء کرکے مارا جا رہا ہے۔ درجنوں مزدور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران عسکریت پسندوں کے حملو ں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ ورکرز کی سکیورٹی کے لیے ہم نے کئی بار متعلقہ حکام سے رابطہ کیا لیکن صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی۔‘‘
بلوچستان ميں مزدور کام کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
سوات سے تعلق رکھنے والا 55 سالہ زر ولی کوئٹہ کے قریب سورینج کی کوئلہ کان میں گزشتہ دس سالوں سے کام کر رہا تھا۔ تاہم اب اس نے کام پر جانا چھوڑ دیا ہے۔ زر ولی کہتا ہے کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے افراد کو عسکریت پسندوں کی جانب سے مسلسل کام چھوڑنے کی دھمکیاں موصول ہوتی ہيں۔
زر ولی نے دعوی کيا، ”ہمارے ساتھ کام کرنے والے کئی افراد کو مسلح افراد اغواء کر کے قتل کر چکے ہیں۔ مقتولین کے خاندانوں کی آج تک حکومتی سطح پر داد رسی نہیں ہوئی اور نہ ہی مائن مالکان نے اس ضمن میں کوئی کردار ادا کیا۔ مائن ورکرز کے پاس کام چھوڑنے کے علاوہ فی الوقت دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔‘‘۔ زر ولی کا خیال ہے کہ مائننگ انڈسٹری سے وابستہ افراد کو جان بوجھ کر ایک ایسے ماحول میں کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جہاں ان کی جان و مال کو کوئی تحفظ حاصل نہيں۔
قیام امن کی بگڑتی ہوئی صورتحال نے لوگوں کو اس قدر متاثر کیا ہے کہ کوئلہ کانوں کےمالکان کے لیے ورکرز کم پڑتے جارہے ہیں۔ غیر مقامی مزدوروں کے ساتھ ساتھ مقامی مزدور بھی مائننگ کے کام سے دور ہو رہے ہیں۔
عسکریت پسند بلوچستان میں ترقیاتی عمل کے کیوں خلاف ہیں؟
بلوچستان میں شورش سے دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ ترقیاتی عمل بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ بلوچستان کے سابق گورنر ملک عبدالولی کہتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں صوبے میں جو خدشات ظاہر کرتی رہی ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
”عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ وہ صوبے میں ترقیاتی عمل کو اپنے مفاد سے متصادم سمجھتے ہیں۔ موجودہ اور سابقہ حکومتیں یہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے جو معاہدے کرتی رہی ہیں، ان میں بلوچ قوم کے مفاد کو شاید اس طرح سامنے نہیں رکھا گیا، جس کی ضرورت تھی۔ زمینی حقائق کے برعکس ہونے والے فیصلوں سے ایسے ہی اثرات سامنے آتے ہیں۔ میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ اب بھی وقت نہیں گزرا، حکومت ان تمام سیاسی معاملات کو طاقت کے بجائے افہام و تفہیم اور بصیرت سے حل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
ملک ولی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کمپنیاں بلوچستان میں اربوں ڈالرز کے جن منصوبوں پر کام کر رہی ہیں، ان کے مطلوبہ نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آ سکتے جب تک اس ضمن میں عوامی خدشات کو دور نہیں کیا جاتا۔
مخدوش سکیورٹی صورتحال سے اقتصادی شعبہ کس طرح متاثر ہو رہا ہے؟
بلوچستان کے شمال مشرقی اور بعض جنوب مغربی حصوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں کے ملازمین پر بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران درجنوں حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں میں تعمیراتی کمپنیوں کے ملازمین کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ حملہ آوروں نے کئی کمپنیوں کی مشینری او ر دیگر سامان بھی نذر آتش کیا۔
کوئٹہ میں مقیم اقتصادی امور کے ماہر محمد ایوب خان کہتے ہیں کہ سکيورٹی کی مخدوش صورتحال نے بلوچستان میں اقتصادی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نےکہا، ”بلوچستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے اقتصادی شعبے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ ترقیاتی عمل متاثر ہونے سے حکومتی آمدنی میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ احساس تحفظ کے بغیر اس ترقیاتی عمل کا حصہ بننے کے لیےکوئی ورکر تیار نہیں۔‘‘
ایوب خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے صوبائی بجٹ میں ہر سال سکیورٹی کے لیے ایک خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے مطلوبہ نتاج سامنے نہیں آر ہے ہیں۔
واپس کریں