دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان اب حماد صافیوں کے ہاتھ میں ہے
No image ان دنوں پاکستان کے ننھے پروفیسر حماد صافی کےچرچے دنیا بھرمیں ہورہےہیں،کہیں یونیورسٹیوں میں ان کے لیکچرز کی دھوم ہے تو کہیں یوٹیوب پر لاکھوں سبسکرائبرز (Subscribers) ان کے فین ہیں .حماد صافی اپناتعار ف بلاگر ،موٹیویشنل اسپیکر ،گرافک ڈیزائنر اور امن کےسفیر کے طور پر کرواتے ہیں۔ وہ دوسرے بچوں کی طرح ڈاکٹر یا انجینئر بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سچا پاکستانی بنناپسندکرتےہیں۔ پاکستان سے محبت کا اظہار اور ایک سچے پاکستانی ہونے ثبوت حماد صافی اپنے لیکچرز میں دیتے رہتے ہیں۔

حماد صافی کو ہم پچھلے چھے سات سال سے دیکھتے ہیں کہ کبھی وہ کسی یونیورسٹی میں مقصد حیات پر لیکچر دے رہے ہوتے ہیں تو کبھی وہ گیریژن کیڈٹ کالج کوہاٹ میں، کبھی وہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی وزیرستان کے کسی ڈگری کالج میں پاک فوج کی طرف سے وزیرستان میں قیام امن کے حوالے سے کی گئی کوششوں پر روشنی ڈال رہے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ نسٹ اسلام آباد میں اساتذہ اور طلبہ کو بامقصد زندگی گزارنے کے اصولوں سے روشناس کروا رہے ہوتے ہیں تو کبھی مدرسہ بیت الامن میں۔

حماد صافی نے پچھلے پانچ مہینوں میں دو بار سات آٹھ پوسٹیں فیس بک شیئر کی ہیں جس میں سوشل میڈیا اور موبائل فون کے منفی اثرات پر بات کی گئی تھی اور وہ یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ انہوں نے کبھی موبائل فون اس عمر تک استعمال نہیں کیا، حالانکہ ان کی سینکڑوں تصاویر ایسی ہیں جہاں وہ فون استعمال کر رہے ہیں۔ ایک جگہ تو (اپنی علمیت دھاک بٹھاتے ہوئے ) اساتذہ کو سرزنش کرتے ہوئے فیس بک پر پوسٹ کی کہ ”میں نے اپنی پوری زندگی میں سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کیا میرے اساتذہ اس محاذ پر لگ گئے اور میں پڑھائی کے میدان میں کود گیا۔“

پہلے پہل آپ حماد صافی کو ٹائی کوٹ/تھری پیس میں دیکھتے تھے۔ لیکن بعد ازاں آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اپنا حلیہ اپ ڈیٹ کر کے عمامہ باندھنا یا سر پر ٹوپی پہننا شروع کر دیا اور اپنی تقریروں میں مذہبی ٹچ زیادہ دینا شروع کر دیا۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا عام بچوں سا بالکل نہیں وہ عام بچوں سے ہٹ کر ہے۔ یعنی وہ ایلین ہے سپر نیچرل طاقتیں یا مطلق العنان طاقت اس کے ساتھ ہے۔ اب چیز کو مذہبی طبقہ اس وقت تک قبول نہیں کرتا جب تک ظاہراً شخصیت میں مذہبی ٹچ نہ ہو اور شاید اسی لیے حماد صافی کا حلیہ اپڈیٹ کیا گیا اور مدارس میں بھی ان کے سیشنز کا اہتمام کروایا گیا تاکہ ہر حوالے سے سند رہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جن بیساکھیوں کے سہارے آپ آج کی نسل کو چلانا چاہ رہے ہیں کیا یہ عارضی بندوبست انہیں نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر پائے گا؟ یہ اس نسل کے ساتھ کیسا کھلواڑ ہے کہ جہاں کھڑے ہو کر ایسے لوگوں کو لیکچرز دینے کی دعوت دینی چاہیے تھی جو دنیا بھر میں سائنس و ٹکنالوجی کے ایکسپرٹ جانے جاتے ہیں تاکہ یہ نسل بھی دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جدید تقاضوں سے مصافحہ کر کے خود کی تعمیر کرنے کے قابل ہوں مگر ہم ان کے سامنے طارق جمیل، احمد رفیق اختر اور حماد صافی کو کھڑا کر کے ان کی برین واشنگ اور ان ڈاکٹری نیشن کر کے ”پر“ کاٹنے میں مصروف ہیں۔
ہم اس حقیقت کو سمجھنے سے کیوں عاری ہیں کہ مذہب یا عقیدہ ہر انسان کا انتہائی نجی معاملہ ہوتا ہے اور اس کی پریچنگ پلیس مساجد ہوتی ہے پبلک یونیورسٹیاں نہیں۔ اور ایسے لوگوں کے مانولاگ کے لئے یونیورسٹیز کا روسٹرم نہیں بلکہ مساجد کے ممبر ہوتے ہیں اور ان کے مخاطب مقتدی ہوتے ہیں نا کہ یونیورسٹی کے طلباء۔ دونوں کی الگ الگ ڈومین ہے محراب و ممبر میں جتنی مرضی تبلیغ کریں کوئی حرج نہیں مگر یونیورسٹی میں طلبہ جدید علوم جو انہیں اس دنیا میں جینے کا نیا ڈھنگ دیتے ہیں وہ سیکھنے آتے ہیں۔

خدارا اس ملک کے ”حماد صافیوں“ کا ذہنی اغوا کر کے ان کے تخلیقی پر مت کاٹیں، انہیں خود اڑ کر اپنا اپنا تخلیقی جہان ڈھونڈنے دیں۔ یہ کیسا ظلم ہے کہ ایک حماد صافی کو ”ننھا پروفیسر“ بنا کر انتہائی بے رحمی اس کے پر کاٹ کر یونیورسٹی کے روسٹرم پر اس لیے بلایا گیا ہے کہ ”وہ نئی نسل کو اڑنا سکھائے“ ۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ جس کے خود کے پر کاٹ دیے گئے ہوں وہ اپنے جیسے دوسروں کو اڑنا کیسے سکھا سکتا ہے؟ سوشل کنڈیشننگ کر کے جسے فکری بونا بنا دیا گیا ہو وہ بھلا دوسروں کو نئی سوچ کیسے عطا کر سکتا ہے؟

بشکریہ: شفقنا اردو
واپس کریں