دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عمران خان، رہائی کے اب 20 برطانوی پارلیمینٹیرینز لیے خط۔
No image پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ 20 برطانوی پارلیمینٹیرینز نے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو خط لکھا ہے جس میں انہیں پاکستانی حکومت سے عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ’محفوظ رہائی‘ کے لیے بات کرنے کو کہا گیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما ذلفی بخاری نے اتوار کو ایکس پر ایک خط پوسٹ کیا، جس پر 16 اکتوبر کی تاریخ درج ہے۔ یہ خط برطانوی ممبر پارلیمنٹ کم جانسن کے لیٹر ہیڈ پر وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے نام لکھا گیا ہے۔
خط کے آخر میں کم جانسن کے دستخط ہیں اور نیچے مزید اراکین پارلیمان کے نام موجود ہیں، تاہم ان کے دستخط موجود نہیں ہیں۔
لیورپول ریور سائیڈ کی رکن پارلیمنٹ کم جانسن نے عمران خان کے مشیر برائے بین الاقوامی امور ذلفی بخاری کی درخواست پر برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈیوڈ لیمی کو خط لکھا ہے۔
خط میں ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے کہا گیا کہ ’برطانوی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان سے بات کرے اور عمران خان کی رہائی کے لیے کوشش کرے۔عمران خان کی مسلسل نظربندی پر شدید تشویش کے ساتھ لکھ رہے ہیں، عمران خان کی قید کا مقصد انہیں سیاسی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے سے نااہل قرار دینا تھا۔‘
ارکان پارلیمنٹ نے خط میں لکھا کہ ’عمران خان کی مسلسل نظر بندی ملک میں جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرے کی نمائندگی کرتی ہے، قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ عمران خان کی قسمت کا فیصلہ ممکنہ طور پر ایک فوجی عدالت کرے گی جو ایک تشویش ناک اور مکمل طور پر غیر قانونی عمل ہوگا۔‘
خط میں جن ارکان کے نام لکھے گئے ہیں، ان میں ہاؤس آف لارڈز اور ہاؤس آف کامنز کے ارکان شامل ہیں، جن میں کم جانسن ایم پی، پاؤلا بارکر ایم پی، اپسانہ بیگم ایم پی، لیام برن ایم پی، روزی ڈفیلڈ ایم پی، گل فرنس ایم پی، پاؤلیٹ ہیملٹن ایم پی، پیٹر لیمب ایم پی، اینڈی میکڈونلڈ ایم پی، ابتسام محمد ایم پی، بیل ریبیرو-ایڈی ایم پی، زرا سلطانہ ایم پی، اسٹیو ویدرڈن ایم پی، نادیہ وٹوم ایم پی شامل ہیں۔
خط پر بیرنس جان بیک ویل، بیرنس کرسٹین بلور، لارڈ پیٹر ہین، لارڈ جان ہینڈی اور لارڈ ٹوڈوانفی کے نام بھی موجود ہیں۔
ایکس پر اپنی پوسٹ میں ذلفی بخاری نے ڈیوڈ لیمی کو خط لکھنے پر کم جانسن اور دیگر ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا۔
ذلفی بخاری کی ایکس پر اس پوسٹ کو پی ٹی آئی کے آفیشل ایکس ہینڈل سے بھی ری ٹویٹ کیا گیا۔
بظاہر 16 اکتوبر 2024 کو لکھے گئے اس خط پر مزید کیا پیش رفت ہوئی ہے اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے اس خط کے بعد کیا پاکستانی حکومت سے کوئی بات کی ہے، اس حوالے سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی پاکستانی دفتر خارجہ نے اس بارے میں کوئی بیان جاری کیا ہے۔
اس سے قبل 23 اکتوبر 2024 کو امریکی ایوان نمائندگان کے 60 سے زائد ڈیموکریٹک قانون سازوں نے صدر جو بائیڈن کو ایک خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں قید عمران خان کی رہائی کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔
پاکستان نے اس اقدام کو ’سفارتی آداب کی خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا۔
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے 24 اکتوبر کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ پاکستان کے اندرونی معاملات پر تبصرہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے، ایسے خطوط پاکستان امریکہ تعلقات اور باہمی احترام کے ساتھ مماثل نہیں ہیں۔‘
امریکی قانون سازوں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’ہم آپ (جو بائیڈن) سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کے ساتھ امریکہ کا اہم اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے، جن میں عمران خان بھی شامل ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو محدود کیا جا سکے۔‘
کانگریس مین گریگ کاسر کی سربراہی میں لکھے گئے خط کے مطابق ’امریکی کانگریس کے متعدد ارکان کا عمران خان کی رہائی کے لیے یہ اس طرح کا پہلا اجتماعی مطالبہ ہے، جو طویل عرصے سے امریکی خارجہ پالیسی کے ناقد رہے ہیں اور ان کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں۔‘
اس سے قبل جولائی 2024 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ورکنگ گروپ نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کی قید ’بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ ہے۔
واپس کریں