دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فائز عیسٰی کو عدلیہ کی تاریخ میں کیسے یاد کیا جائے گا؟
No image جسٹس عیسیٰ کے متنازع فیصلوں میں سرفہرست پی ٹی آئی کے انتخابی نشان ”بلے‘‘ کواس بنیاد پر معطل کرنا تھا کہ پارٹی منصفانہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی۔ یہ فیصلہ وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنا، خصوصاً الیکشن کے قریب یہ اقدام ایک سخت ردعمل کے طور پر دیکھا گیا۔ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ جسٹس عیسیٰ کا پی ٹی آئی کے ساتھ رویہ انتقامی تھا، خاص طور پر اس لیے کہ پارٹی قیادت نے ان کے خلاف ماضی میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
مزید برآں، جسٹس عیسیٰ نے جولائی کے فل بینچ کے فیصلے پر اختلاف کیا جس میں مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی گئیں۔ ان کا موقف تھا کہ اس فیصلے میں آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے، حالانکہ بینچ کی اکثریت نے پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے پر جسٹس عیسٰی کے حالیہ ریمارکس پر بھی کافی تنقید ہوئی جس میں انہوں نے اکثریتی فیصلے کو آئینی اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے آٹھ ججوں پر تنقید کی جو اس فیصلے کے حق میں تھے۔
تاہم، ان متنازع فیصلوں کے ساتھ ساتھ، جسٹس عیسیٰ نے عدالتی اصلاحات کے حوالے سے بھی اہم اقدامات کیے۔ انہوں نے عدلیہ کی طویل گرمیوں کی چھٹیوں کو کم کیا اور خود چھٹی نہ لے کر مقدمات کی سماعت جاری رکھی۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے پہلے دن ہی انہوں نے سپریم کورٹ کی کارروائیوں کو براہِ راست نشر کرنے کا حکم دیا، جو عدالتی شفافیت کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ ایک اور تاریخی کیس میں انہوں نے نیشنل پارک کی اراضی کو دوبارہ سرکاری تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا، جو ماحول اور سرکاری زمینوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک اہم مثال ہے۔
حامد خان، جو کہ جسٹس عیسیٰ کے ناقد ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ ان کے کچھ فیصلے یاد رکھے جائیں گے۔ خامد خان نے جسٹس عیسیٰ کے اس فیصلے کا حوالہ دیا جس میں سابق صدر پرویز مشرف کی سزائے موت کو بحال کیا گیا، جو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تھی۔ خان کے مطابق، یہ فیصلہ طاقتور فوجی قیادت کے ساتھ ایک چیلنج کے طور پر سامنے آیا۔
خان نے اس بات کی بھی تعریف کی کہ جسٹس عیسیٰ نے ہائی کورٹ کے جج شوکت صدیقی کو بحال کیا، جنہیں بغیر انکوائری کے ہٹایا گیا تھا، اور زور دیا کہ کوئی جج بغیر قانونی عمل کے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، جسٹس عیسیٰ کو عدالت کے کارروائیوں کی براہ راست نشریات شروع کرنے پر بھی سراہا گیا، جو خان کے مطابق، ان کی مدت سے پہلے زیر غور تھا۔ تاہم، خان کا کہنا ہے کہ جسٹس عیسیٰ کی وراثت ان کے پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی رویے کے تاثر سے داغدار ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انتخابات کو یقینی بنایا، آئین کے نفاذ کو یقینی بنایا اور عدالتی مہم جوئی کوختم کیا۔ یہ کافی بڑی کامیابیاں ہیں۔ انہوں نے قانون سازوں اور انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، اور یہ ایک مثبت بات ہے۔
تاہم، علی ظفر کا کہنا ہے، ”وہ مجموعی طور پر ناکامی کے طور پر یاد کیے جائیں گے، کیونکہ انہوں نے صرف ایک فیصلہ کے ذریعے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کو چھین کر اپنی ساکھ اور کیریئر کو تباہ کر دیا، جس کا مقصد پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانا تھا۔‘‘ ان کے مطابق، یہی وہ جگہ ہے جہاں سب کچھ غلط ہوا۔
جسٹس منصور علی شاہ، جو کہ عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے سب سے سینیئر جج ہیں، نے الوداعی تقریب میں شرکت نہیں کی، جس کی وجہ وہ عدالت کے اندر گہرے اختلافات اور تناؤ کو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنی غیر موجودگی کے حوالے سے ایک خط میں وضاحت کی کہ عیسیٰ کی مدت کا تعین ”چھوٹی سوچ، انتقامی مزاج اور عاجزی کی کمی سے ہوتا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جسٹس فائز عیسی کے متنازع ہونے میں پی ٹی آئی کے مفادات کے خلاف دیے گئے فیصلوں کا کردار سب سے زیادہ ہے لیکن ان کے مخالفین بھی ان کے بعض فیصلوں کو سراہتے ہیں۔
بشکریہ ۔شفقنا اردو
واپس کریں