دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسلمان اور لونڈی غلام
No image ہمارے علماء کی عادت ہو گئی ہے کہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کا آغاز دوسری اقوام کی تنقیص و تذلیل سے کرتے ہیں مثلاً آج کل ارباب ِ اصلاح یہ ثابت کرنے کی فکر میں ہیں کہ تمام قدیم اقوام نے عورت کو ذلت اور پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا تھا۔ مسلمانوں نے اسے اس گڑھے سے نکال کر عزت و توقیر کے مقام پر فائز کیا۔ حقیقت اگرچہ بے حد تلخ اور ناگوار ہے کہ جہاں کہیں ہماری حکومتیں قائم ہوئیں اسی ملک میں بردہ فروشی کا کاروبار چمک اٹھا۔ بغداد، سامرا، دمشق و حلب، قاہرہ، قرطبہ جہاں علوم و فنون اور تہذیب تمدن کے مرکز تھے وہاں بردہ فروشی کیلئے بھی رسوائے زمانہ تھے۔ ان کے بازاروں میں کنیزیں بھیڑ بکریوں کی طرح بکتی تھیں۔ گاہک انہیں ٹٹول ٹٹول کر خریدتے جیسے قصاب بھیڑوں کو خریدتا ہے۔ خلفاء اور سلاطین کے محلات میں سینکڑوں کنیزیں موجود تھیں جو اطراف و جوانب کے ملکوں سے درآمد کی جاتی تھیں۔ یہ کنیزیں اپنے آقاؤں کی ہواؤ ہوس کی تسکین بھی کرتی تھیں اور مجالس ناؤ نوش میں ساقی گری اور ارباب نشاط کے فرائض بھی ادا کرتی تھیں۔ بنو امیہ کے عہد میں مکہ ، مدینہ اور طائف میں موسیقی اور رقص کے سیکھنے کیلئے بڑی بڑی درسگاہیں قائم ہو گئیں۔ جہاں بردہ فروش کنیزوں کو تعلیم دلا کر گراں قیمتوں پر فروخت کرتے تھے۔ ترکستان کے مفتوحہ علاقوں سے ہر سال ہزاروں حسین اور نوخیز لڑکیاں بطور خراج بغداد بھیجی جاتی تھیں۔ الحمرا میں آج بھی دالانِ بکر موجود ہے ، جس میں عیسائ سلاطین کی طرف سے خراج میں بھیجی ہوئ ایک سو کنواری لڑکیاں ہر سال رکھی جاتی تھیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر یہ معلوم کر کے چنداں حیرت نہیں ہوتی کہ 37 خلفائے عباس میں صرف دو خلیفہ ایسے تھے جو کنیزوں کے بطن سے نہیں تھے۔ یعنی سفاح اور امین الرشید۔ باقی سب کنیز زادے تھے۔ عرب بردہ فروش بربر اور حبش کے علاقوں پر حملے کر کے ہر سال ہزاروں عورتیں جبراً اٹھا لاتے تھے۔ انہیں مختلف شہروں میں بیچتے تھے۔ 19 ویں صدی تک تمام اسلامی ممالک میں یہ سلسلہ جاری تھا تا آنکہ اہلِ مغرب نے بردہ فروشی کو خلافِ قانون قرار دیکر اس کا خاتمہ کیا ۔ ان حقائق کی موجودگی میں یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے عورتوں سے بہتر سلوک کیا ہے ۔ عورت کے خلاف اس تعصبِ دیرینہ کی حد یہ ہے کہ سرسید احمد خان اور علامہ اقبال جیسے زعمائے ملت نے بھی عورت کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کی ہے اور پردے کے حق میں دلائل دئیے ہیں۔
( اقبال کا علم کلام از علی عباس جلالپوری )
نوٹ: ان تمام سیاہ کاریوں میں اس وقت کے علما فقہا اور مشائخ شامل تھے۔اج بھی فقہ کی کتابیں لونڈی غلام کے احکام و مسائل سے بھری ہوئی ہیں.
واپس کریں