دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئینی ترمیم: اصل جیت کس کی ہے؟
No image پاکستان میں حکومت 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی معاملات میں عدالتی مداخلت کم کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن بعض سیاسی اور آئینی حلقوں میں اس حکومتی دعوے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ بعض آئینی ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ترمیم جمہوریت کو مضبوط کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول کو مزید مستحکم کرے گی۔
موجودہ حکومت پر پہلے دن سے ہی اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے آٹھ فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک رِٹ پٹیشن بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، جسے مبینہ طور پر موجودہ چیف جسٹس کی شمولیت کے باعث کبھی سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کی تقسیم سے متعلق فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست بھی ابھی تک سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
چھبسیویں آئینی ترمیم کے بعد ایسے تمام معاملات سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ کے پاس جائیں گے۔ یہ بنچ سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعہ تشکیل دیا جائے گا، جس میں چار سینئر ججز، قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دو دو ارکان، وفاقی وزیر قانون اور بار کونسل سے ایک سینئر رکن بھی شامل ہوں گے۔
بطاہر حکومت نے یہ ترمیم ججز کے ‘کارٹل’ کو توڑنے اور آئینی معاملات کو عام مقدمات سے الگ کرنے کے لیے متعارف کرائی ہے۔ حکومتی ارکان نے پارلیمنٹ میں اپنی تقاریر کے دوران سپریم کورٹ کے اس کردار پر تنقید کی ہے جو کہ وقت کہ وزرائے اعظم، جیسے یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کو نااہل قرار دے چکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا حکومت اس ترمیم کے ذریعے ملکی جمہوریت کو مضبوط کرنے سمیت عدالتی امور میں کوئی اہم تبدیلی لا سکے گی یا اس کا فائدہ صرف کچھ پوشیدہ طاقتوں کو پہنچے گا۔ تاہم سابق سیکرٹری قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل عرفان قادر اس آئین ترمیم کی حمایت میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عدلیہ سمیت ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے، ”آئینی بینچوں کی تشکیل اور چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمانی ارکان کو شامل کر کے نیوٹرل ججز کی تقرری اور غیر جانبدار کمیٹوں کی تشکیل ممکن ہو سکے گی۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی اعلیٰ عدلیہ مکمل طور پر متنازعہ بن چکی ہے۔ عرفان قادر نے پارلیمانی اتفاق رائے کے ساتھ ایک بالکل نئی سپریم کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دیتے ہوئے کہا، "جس میں اچھے ججز کو برقرار رکھا جا سکے اور متعصب ججز کو ہٹا دیا جائے۔”پاکستان تحریک انصاف کے لیے اس موجودہ ترمیم کے ممکنہ مضمرات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ٰعرفان قادر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو احتجاج کے بجائے پارلیمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
تاہم بعض آئینی ماہرین کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے اندر بھی کچھ حلقے نئی ترمیم کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں کہ یہ مطلوبہ نتائج فراہم کرنے میں مؤثر ثابت ہو گی۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس (ریٹائرڈ) انور ظہیر جمالی نے چھبیسویں آئینی ترمیم کو عدلیہ کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ عدلیہ خود بھی معاملات کو موجودہ سطح پر پہنچانے کی ذمہ دار ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، "موجودہ ترمیم سے اسٹیبلشمنٹ کو مضبوطی ملے گی، جو کہ اس سب کے پیچھے اہم طاقت ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ ایک شخصی حکمرانی رہی ہےاور اب بھی یہی صورت حال ہے۔”
انہوں نے اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”اب اسٹبلشمنٹ ک لیے کام پہلے سے آسان ہو گیا ہے۔ پہلے انہیں ذیادہ قانون سازوں پر کام کرنا پڑتا تھا اب صرف اُن پر کرنا ہو گا، جو ججوں کی تعیناتی سے متعلق کمیٹی کے ممبر ہوں گے۔”
بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی کے لیے چھبیسویں آئینی ترمیم کے ممکنہ نتائج پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے نتیجے میں پارٹی کو انصاف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، تاہم بقول ان کے حکومت کے حقیقی ارادے آنے والے دنوں میں زیادہ واضح ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا، "یہ خدشہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد سینئر ججز حکومت کو خوش کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ اگلے چیف جسٹس بن سکیں۔”
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس ترمیم میں عام عوام کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ حکومتی تشکیل کردہ آئینی بنچوں سے انصاف حاصل نہیں کر پائیں گے۔
تاہم علی ظفر کے برعکس عرفان قادر کا کہنا ہے کہ اب سپریم کورٹ سیاسی مقدمات پر وقت ضائع کرنے کے بجائے عوامی مقدمات پر زیادہ توجہ دے سکے گی۔ ان کا کہنا تھا، "اب سیاسی اور آئینی مقدمات آئینی بنچوں کے ذریعے نمٹائے جائیں گے۔” انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف سپریم کورٹ میں پچاس ہزار سے زاٰئد مقدمات زیر التوا ہیں۔
واپس کریں