دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئینی ترمیم: توقعات اور خدشات
No image صدر مملکت کی جانب سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت سے منظور کی جانے والی 26 ویں آئینی ترمیم کی توثیق کے بعد اس پر عملدرآمد کی کارروائی بلاتاخیر شروع کر دی گئی ہے اور توقع ہے کہ پارلیمانی کمیٹی جلد سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے نام کا اعلان کر دے گی جس کیلئے موجودہ چیف جسٹس تین سینئر ترین ججوں کا پینل وزارت قانون کو بھیج چکے ہیں تا ہم یہ جو توقع کی جا رہی تھی کہ اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا ٗ وہ پوری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس آئینی ترمیم سے محلاتی سازشوں کا دور ختم ہو جائے گاٗ میثاق جمہوریت کا ادھورا خواب پورا ہو گاٗ منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا اور لاکھوں لوگوں کو انصاف ملنے میں آسانی ہو گی۔ تا ہم پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے ترمیم کو عدالتوں میں چیلنج کرنے اور پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کا جو عندیہ دیا ہے اس سے لگتا ہے کہ ترمیم کے مقاصد پورے ہونے کی راہ میں ابھی رکاوٹیں موجود ہیں۔
پی ٹی آئی نے ترمیم کی منظوری کے وقت سینیٹ اور قومی اسمبلی سے واک آئوٹ کیا تھا مگر اس پر عملدرآمد کے سارے پروسیس میں وہ پوری طرح شریک ہے اور اس کی مخالفت میں بھی کسی بھی حد تک جانے کے دعوے کر رہی ہے۔ اس نے چیف جسٹس کے تقرر کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی میں اپنے نمائندے نامزد کر دیئے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہی ہے کہ سینئر ترین جج کے سوا وہ کسی دوسرے کو چیف جسٹس تسلیم نہیں کرے گی۔ اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کیا حکومت آئینی ترمیم کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی؟ ۔ ترمیم کا مقصد عدالتی اصلاحات کے علاوہ حکومتی حلقوں کی رائے میں پارلیمان کی بالا دستی تسلیم کرانا ہے۔ اس حوالے سے عدلیہ کی جانب سے ماضی میں کئے گئے کئی متنازعہ فیصلوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ عدلیہ نے آج تک جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام نہیں کیا۔ جمہوریت کو نقصان البتہ ضرور پہنچایا ہے۔ اس نے ڈکٹیٹروں کو حکمرانی کا جواز بخشا۔ حتیٰ کہ انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا جو صرف منتخب پارلیمان کا استحقاق ہے۔ عدلیہ اس طرح سویلین بالا دستی کو کمزور ہی کرتی رہی۔ اسی لئے بین الاقوامی رینکنگ میں پاکستان کی عدلیہ بہت نیچے ہے۔ لہٰذا عدالتی اصلاحات ضروری تھیں جو کسی کو پسند آئیں اور کسی کو نہیں۔ انٹرنیشنل جیورسٹس کمیشن نے آئینی ترامیم کو عدلیہ کی آزادی کیلئے دھچکا قرار دیا ہے۔ سیاسی مخالفین کا بھی کہنا ہے کہ وہ برسر اقتدار آ کر 26ویں آئینی ترمیم کو ختم کر دینگے۔ چیف جسٹس کے تقرر کیلئے جو پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی ہے اس میں حکومتی اتحاد کے ارکان کی اکثریت ہے جس سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس حکومت کی مرضی کا ہی ہو گا۔
آئینی ترمیم میں عدلیہ کے حوالے سے جو تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں ان کے مثبت یا منفی پہلو تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سامنے آئیں گے مگر بادی النظر میں یہ تبدیلیاں انصاف کو یقینی بنانے کیلئے کی گئی ہیں۔ قانون سازوں ٗ خصوصاً حکمرانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ مخالفین کے خدشات اور اپنی توقعات میں توازن قائم کرنے کی کوشش کریں۔ قوم سیاستدانوں کے غلط اور عدلیہ کے آئین و قانون سے تصادم فیصلوں کے نتائج بھگت چکی ہے۔ اس لئے سیاسی اور عدالتی نظام کو خامیوں سے پاک ہونا چاہئے۔ توقع ہے کہ اس معاملے میں برسر اقتدار طبقہ اور اپوزیشن دونوں عوامی مفاد کو مقدم رکھیں گے اور اپنا طرز عمل آئینی حدود کے تابع بنائیں گے۔
واپس کریں