دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئینی ترمیم۔ کیا بدلے گا؟
No image حکومت اپنے اتحادیوں کی مدد سے یکے بعد دیگرے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ابتدائی ترمیمی مسودے میں شامل 50شقوں کو زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کیلئے22تک محدودکیا گیا۔ترامیم کا زیادہ تر تعلق عدالتی اصلاحات سے ہے۔تاہم یکم جنوری 2028تک سود کے مکمل خاتمے کا فیصلہ ۔عدلیہ کے حوالے سے قیام پاکستان سے اب تک شکایات کا ایک طومار تھا،جس کے ازالے کی کوشش کی گئی ہے۔چیف جسٹس کی تقرری میں سینیارٹی کے ساتھ میرٹ کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہےاور اس کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کرے گی جو اس امر کا استعارہ ہے کہ پارلیمنٹ ہی ملک کا سپریم فیصلہ ساز اور بااختیار ادارہ ہے۔آئینی تنازعات کا فیصلہ کرنے کیلئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں آئینی بینچ بنائے جائیں گے جن کے ججوں کا تعین جوڈیشل کمیشن کرے گا۔چیف جسٹس کا سوموٹو اختیار ختم کردیا گیا ہے،جس پر مختلف اوقات میں اعتراضات کیے جاتے رہے۔یہ اختیار اب آئینی بینچ کے پاس ہوگا۔جوڈیشل کمیشن اور الیکشن کمیشن کے حوالے سے بھی کچھ ترامیم کی گئی ہیں ۔اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی تقرری دنیا بھر کے مختلف نظاموں میں مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے۔محض یہ کہنا کافی نہیں کہ حکومتی ترامیم سے عدلیہ ،انتظامیہ کے تابع ہوجائے گی اور اس کی آزادی پر اثرپڑے گا۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آئینی ترامیم حکومت نے اپنے تحفظ کیلئے کی ہیں۔اگر ایسا ہے تو حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ کل اسے بھی اپوزیشن میں بیٹھنا پڑسکتا ہےاور جو شکایت آج اپوزیشن کو ہے ،کل اسے بھی لاحق ہوسکتی ہے۔آئینی ترامیم کا یہ پہلو بھی مدنظررکھنا چاہئے کہ اس وقت ہزاروں نہیں ،شاید لاکھوں مقدمات عدالتوں میں زیرالتوا ہیں،جن کی سماعت کی باری ہی نہیں آتی۔آئینی بینچ تشکیل پانے کے بعد توقع ہےکہ ایسے مقدمات بھی عدالتوں میں سنے جائیں گے جن کی سالہا سال سے باری نہیں آئی اور غریب سائلین ناپرسی کا شکار ہیں،انصاف انھیں بھی ملنا چاہئے،26ویں ترمیم میں آئینی بینچوں کی گنجائش اسی لئے پیدا کی گئی ہے ۔اس سے عدالتوں میں مقدمات کی شنوائی اور انصاف تک سب کی رسائی آسان ہوجائے گی۔حکومت فوجداری قوانین میں بھی ترامیم کرنے جارہی ہے،جس سے انصاف سہل اور سستا کرنے میں مدد ملے گی۔
واپس کریں